• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک نہایت عزیز خدا ترس دوست عبدالرشید سیال ملتان میں ایک کلینک چلا رہے ہیں۔ ان کی کتاب امریکی طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے۔ خوفِ خدا اور خدمت خلق انکے چہرے، رگ رگ اور اعمال سے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کینسر اور تھیلیسیمیا پر بہت کام کیا ہے اور اچھی کتابیں اور مقالے لکھے ہیں۔ میں ان کو تقریباً 25برس سے جانتا ہوں اور کئی بار انکے کلینک گیا ہوں۔ مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ کلینک میں اچھی سہولتیں ہیں۔ اُن کیساتھ ایک سچا واقعہ پیش آیا جو انہوں نےمجھ سےشیئر کیا۔ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔ہر حال میں خداوند قدوس کا شکر ادا کرنا اور حمد بیان کرنا۔ ایک روز جب میں دفتر میں داخل ہوا تو ایک 22سالہ انتہائی کمزور لڑکی میرا کمرہ صاف کررہی تھی۔ اسکے کپڑے انتہائی پرانے تھے۔ میں نے اپنی سیکریٹری سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ ہماری پہلی صفائی والی آیا بیماری کی وجہ سے کام چھوڑ گئی ہے، یہ لڑکی کل اچانک ہی کام کے لئے آئی تو میں نے اس سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے پوچھ کر تمہیں بتائیں گے۔ آج وہ آئی تو آتے ہی آپ کا کمرہ صاف کرنے میں لگ گئی۔ دن گزرتے گئے۔ اس بچی کی آنکھوں کی حیا اور چہرے کی معصومیت ایک پیغام دیتی تھی، میں نے کبھی اس سے متعلق پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس بات کو کوئی چھ ماہ گزر گئے تو ایک روز میری سیکریٹری نے مجھ سے کہا کہ نورین کو دو چار پائیاں لے دیں اور پھر اس نے وہ واقعہ سنایا جو اس کیساتھ گزشتہ رات پیش آیا تھا، کہنے لگی کہ روزانہ اس کا شوہر سائیکل پر لینے آتا تھا۔ کل جب وہ کافی دیر تک نہیں آیا تو میں اس کو اس کے گھر چھوڑنے چلی گئی۔ یہ ایک ویرانے میں چھپڑ سا تھا، میں نے اندر داخل ہونا چاہا تو اس نے روکا کہ آپ اندر نہ جائیں۔ میں زبردستی اندر گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہاں پر ماسوا ایک لالٹین کے کچھ بھی نہ تھا۔ اسکے دو بچے زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ تم اور تمہارا خاوند کہاں سوتے ہو؟ تو اس نے زمین کی ایک جانب اشارہ کرکے بتایا کہ وہاں۔ میں نے پوچھا تمہارے پاس کوئی چارپائی، بستر، رضائی، تکیہ، برتن وغیرہ کچھ نہیں؟ تو وہ رو پڑی اور کوئی جواب نہ دیا۔ سیکریٹری کہتی ہے کہ میں نے بھی مناسب نہ جانا کہ مزید تفصیل جانوں۔ دوسرے دن میں نے اسے دو چارپائیاں لے کر دیدیں اور اس نے اپنی طرف سے کچھ برتن بھی دیئے۔ اس بچی کے کتنے بھائی بہن ہیں اور والدین کے کیا حالات ہیں، کیا آپ ایک لمحے کیلئے تصور کرسکتے ہیں۔ جب میں نے کچھ کپڑوں کے پیسے دیئے اور اسے کرایہ پر گھر لے کر دیا تو اس کی حالت دیدنی تھی۔

چند روز پہلے میں نے اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق دفتر میں صلوٰۃ التسبیح شروع کی تو قیام کے دوران اچانک محسوس ہوا کہ میں آسمان میں ایک ایسے مقام پر ہوں جہاں فرشتے خداوند قدوس سے براہِ راست احکام وصول کرتے ہیں۔ چاروں طرف تا حد نظر سفید لباس میں ملبوس فرشتے ہی فرشتے ہیں، اتنے میں رب العزت کی طرف سے آواز گونجتی ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب کی عبادت کا ثواب دوگنا کردو‘‘۔ اُس کے فوراً بعد تمام فرشتے آپس میں چہ مگوئیاں شروع کردیتے ہیں۔ سب فرشتے حیران ہیں کہ اس بچی نے اپنے پالنہار ربّ العزت سے کیا مانگ لیا ہے کہ ایک تو ربّ العزت نے اس بندے کو تمام عمر کی عبادت کے برابر ثواب بخشا ہے اور ساتھ ہی ایسی نعمتیں عطا کی ہیں جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ میں نے نوافل مکمل کئے، بچی کو بلوایا اور اس وقت میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور اس سے استدعا کی کہ وہ ایک بار پھر ربّ العزت سے میرے لئے ویسی ہی دعا مانگے۔ کچھ دن بعد القاء ہوتا ہے کہ اس نے تو کچھ نہیں مانگا لیکن جو کچھ بھی آپ نے اسے دیا ہے وہ اتنی خوش تھی اور جب رات کو وہ چارپائی پر لیٹی تو زار و قطار رو رہی تھی اور زبان پر ’’الحمدللہ‘‘ تھا۔ ربّ العزت کو اس کی یہ ادا پسند آئی اور چونکہ یہ سب کچھ آپ کی طرف سے ہورہا تھا اس لئے انعام تو آپ ہی کو ملنا تھا۔ میں نے اگلے روز اس لڑکی کو بلوا کر اس کے مزید گھریلو حالات معلوم کئے تو پتا چلا کہ اس نے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ وہ بالکل ان پڑھ تھی لیکن نماز کی پابند تھی۔ گھر میں کبھی سالن نہ بھی ہوتا تو وہ سوکھی روٹی اور مرچوں سے پانی کے ساتھ پیٹ بھر لیتی اور ہر حال میں رب العزت کا شکر ادا کرتی اور کہتی ’’الحمد للہ‘‘ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ایسے بھی تو لوگ ہوں گے جن کو یہ سوکھی روٹی بھی میسر نہیں۔ چھوٹی سی عمر میں، جب وہ چودہ سال کی تھی ماں باپ نے خالہ زاد کے ساتھ رشتہ طے کردیا اور شادی ہوگئی۔ شوہر ایک موٹر سائیکل کی دکان پر کام کرتا تھا کبھی سو، دو سو روپے کما کر لاتا۔ ایک سال کے اندر دو جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ کبھی اوپلے تھاپے اور کبھی کسی کے گھر میں 20روپے روزانہ پہ کام کیا لیکن ہر حال میں اس نے رب العزت کا شکر ادا کیا۔ شروع میں سسرال والوں نے ایک چھپڑ میں رہنے کی جگہ دی پھر وہاں سے بھی نکال دیا اور پھر معصوم بچوں کے ساتھ بھینسوں کے کمرے کی ایک نکڑ میں رہ کر گزر بسر کی اور جب اسپتال میں نوکری ملی تو ایک کرایہ کا کمرا لے لیا ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ آج مہنگائی کا کیا عالم ہے لیکن سب سے افضل بات جو میں کرنے جارہی ہوں وہ یہ ہے کہ ’’ہر حال میں ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کرنا‘‘ اور آج میں اتنی خوش ہوں کہ میں زندگی بھر تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کبھی ایسا بھی ہوگا آج پھر میں اپنے رب کے حضور سر بسجود ہوں اور اپنے ڈاکٹر صاحب کی بھلائی اور خوشی کیلئے دعا کرتی ہوں۔ مجھے گھر مل گیا، گھر میں موجود تقریباً ہر وہ چیز جو روزمرہ کیلئے ضروری ہوتی ہے ڈاکٹر صاحب نے مہیا کردی ہے۔میں نے جب اس بچی سے انتہائی درد مندانہ اپیل کی کہ ایک مرتبہ پھر وہی دعا مانگو جو تم نے رات کو میرے حق میں مانگی تھی تو اس نے ذہن پر زور دے کر کہا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا تھا۔ میں بس بے انتہا خوش تھی، خوشی میں زار و قطار رو رہی تھی اور زبان پر ’’ الحمدللہ ‘‘ تھا اور دل میں آپ کیلئے دعا تھی، وہ دعا کیا تھی میں نہیں جانتی صرف اور صرف آپکی صحت اور خوشی مانگ رہی تھی اس جہان میں اور آخرت میں بھی۔

2۔نعمت خداوندی۔ آپ کی خدمت میں حدیث نبویؐ پیش کررہا ہوں، آپ بھی اس پر عمل کیجئے اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے فیضیاب ہوجائیے۔ایک صحابی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوے اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیر لی۔ فرمایا: کیا وہ تسبیح یاد نہیں جو تسبیح ہے ملائکہ کی اور جس کی برکت سے روزی دی جاتی ہے۔ خلق دنیا آئے گی تیرے پاس ذلیل و خوار ہوکر، طلوع فجر کیساتھ سو بار کہا کر: سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم وبحمدہ استغفراللہ

ترجمہ: ’’تسبیح کرتا ہوں میں اللہ کی تاکہ میں اس کی حمد میں مشغول رہوں۔ میں اللہ بزرگ و برتر کی تسبیح کرتا ہوں تاکہ میں اسکی حمد میں مشغول رہوں اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہوں‘‘۔

تازہ ترین