مختار احمد کھٹی ، ٹنڈو غلام علی
ملک میں جمہوری حکومت ،پارلیمنٹ ، خودمختار عدلیہ اور ملکی قوانین پر عمل درآمد کرانے والے نصف درجن سے زائد اداروں کی موجودگی کے باوجودافراتفری کا عالم ہے۔ ہر انسان مختلف النوع مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ہر جرم کی بیخ کنی کے لیے قوانین موجودہیں لیکن ان کا نفاذ اور عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ڈکیت، لٹیرے، راہ زن، قاتل ، ٹارگٹ کلرز، دہشت گرد آزاد ہیں۔ عدالتوں میں برسہا برس تک مقدمات کے فیصلے نہیں ہوپاتے اور جن مقدمات کو نمٹایا جاتا ہے ان کے فیصلوں پر بھی قانونی سقم یا اداروں کی لاپروائی کی وجہ سے عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔ عوام کی اکثریت اپنی نئی نسل کے مستقبل کی جانب سے متفکر ہےکیوں کہ حکمرانوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی تمام تر توانائیاں صرف ایک دوسرے کو پس پردہ دھکیلنے میں صرف ہورہی ہیں اور ان کی ساری توجہ سیاسی جنگ و جدل پر مرکوز ہے جس کی وجہ سے عوامی مسائل ہنورز جوں کے توں ہیں۔
راتوں رات امیر بننے کی تگ و دو میںانسانیت دم توڑ رہی ہے اور غیر اخلاقی برائیاں جنم لے رہی ہیں، اپنے پرائے کا احساس ختم ہو گیا ہے۔ دولت کے حصول کی بھاگ دوڑ میں انسانی جان لینا آج کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اسی سلسلے کا ایک دل خراش واقعہ ٹنڈو غلام علی کے گاوٗں چوہدری محمد اقبال میں پیش آیا جہاں کے ایک نوجوان محمد رضان ولد عبدالسلام جاٹ ایک ہفتہ قبل اپنے گاوٗں سے پر اسرار طور اچانک لاپتہ ہوگیا۔انتہائی تلاش و بسیار کے بعد مقامی تھانے پر اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی گئی۔ جس کےبعدپولیس نے گمشدہ نوجوان کی تلاش کا سلسلہ شروع کردیا۔اس دوران لاپتہ نوجوان کے فون کی سی ڈی آرکے ذریعے اس سے رابطہ کرنے والوں اور آخری موصول شدہ کال کی مدد سےشبہ کی بنیاد پر نوجوان کےآبائی گاوٗںچوہدری محمد اقبال کے رہائشی قریبی اعزاء ،جن میں تنویر عرف ایس،سیف اللہ،اسد اللہ اور اویس ولد ماسٹر شبیرورک کوحراست میں لے کر پوچھ گچھ کی تو تنویر عرف ایس اور سیف اللہ نے بتایا کہ انہوں نے مذکورہ نوجوان محمد رمضان جاٹ کو دھوکے سے اس کے گھر سے بلایا اور اسےخوب شراب پلاکر مدہوش کرنے کے بعد کلہاڑی کے وار کرکے قتل کردیا اور اس کی نعش بوری میں بند کرکے زرعی ادویات کمپنی کی جانب سے ملنے والی کلٹس کار نمبر ایل ای سی۔4049 کے ذریعے لے جاکر،صحرائے تھر کے علاقے، نوکوٹ مٹھی روڈ کے گاوٗں بھانار کے قریب واقع ریت کے ٹیلوں میں دفنا دی۔
ٹنڈو غلام علی پولیس نے زیر حراست تنویر عرف ایس کی نشاندہی پر کلوئی تھانہ کی حدود میں واقع گاوٗں بھانار کے قریب واقع ریت کے ٹیلوں میں دفنائی ہوئی گمشدہ نوجوان محمد رمضان کی بوری میں بند نعش برآمد کرلی جو انتہائی مسخ ہوچکی تھی ۔ نعش پوسٹ مارٹم کی کارروائی کے لیے سرکاری اسپتال ٹنڈو غلام علی لائی گئی، جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد لاش مقتول ورثاءیعنی اس کے بھائیوں کے حوالے کردی گئی۔ پولیس نے زیر حراست تنویر عرف ایس سے آلہ قتل کلہاڑی بھی بازیاب کرلی۔
بعدازاں پولیس نے مقتول محمد رمضان کے بھائی محمد شہزاد کی مدعیت میں تنویر عرف ایس اور اس کےبھائی سیف اللہ سمیت دیگر نامعلوم ملزمان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے اور واقعے میں ملوث ملزمان سے مزید تفتیش کے لیے عدالت سے جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ دوسری جانب بتایاجارہا ہےکہ قتل خاندانی ملکیت کی بنا پر کیا گیا ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کی درج کروائی جانے والی ایف آئی آر میں اس کا سبب گھریلو تنازع بتایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مقتول محمد رمضان جٹ غیر شادی شدہ تھا اور مذکورہ گاوٗں میں اپنے دیگر بھائیوں کےساتھ رہائش پذیر تھا اور کپڑے سلائی کا کاریگر تھا۔ مذکورہ نوجوان کی ایک ہفتہ قبل پراسرار گمشدگی اور بعد ازاں قتل کے انکشاف اور صحرائے تھر کےدور دراز علاقے کے ٹیلوں سےاس کی لاش کی برآمدگی اور پولیس کے مثبت کردار پر عوامی حلقے خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔
اس واقعے کے بارے میں،ایس ایچ اوٹنڈوغلام علی، ریاض علی رند کا کہنا ہےکہ ہم نے مقتول کی گمشدگی کی رپورٹ پر تحقیقات شروع اس کے سیلولر فون سے کی جس پر آخری کال تنویر عرف ایس اور اس کے بھائیوں کی طرف سے کی گئی تھی۔جس کے بعد ہم نے رات گئے ان کے گاؤں پر چھاپہ مار کر انہیں ان کے گھروں سے گرفتار کرکے جب پوچھ گچھ کی تو انہوں نےنہ صرف نوجوان کےقتل کا اقرار کیا بلکہ آلہ قتل بھی پولیس کے حوالے کردیا۔ان کی نشان دہی پر ایک پولیس پارٹی صحرائے تھر روانہ کی گئی جس نے ٹیلوں کے درمیان سے لاش برآمد کرلی جو چاروز پرانی ہونے کی وجہ سے اس حد تک مسخ ہوچکی تھی کہ اس کی شناخت ناممکن تھی۔
ایس ایس پی بدین حسن سردار نیازی نے کہا اس بلائنڈمرڈرکیس کی نہ صرف چھان بین بلکہ ملزمان کی بروقت گرفتاری، نعش کی برآمدگی اور آلہ قتل اور لاش ٹھکانے لگانے کے لیے ستعمال کی جانے والی زرعی ادویات کمپنی کی کار بھی تحویل میں لئے جانے کے عمل پر ٹنڈو غلام علی پولیس داد و تحسین کی مستحق ہے۔