سلیم اللہ شیخ ، بلڑی شاہ کریم
گزشتہ چند ماہ کے دوران بنت حوا کے ساتھ درندگی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے،۔ ان میں سے بیشتر واقعات قانونی پے چیدگیوں اور پولیس کے ہاتھوں پریشانیوں سے بچنے کے لیے رپورٹ نہ کرائے جاسکے۔ سانحہ قصور جس میں سفاک ملزم نے معصوم زینب کودرندگی کا نشانہ بنا نے کے بعد قتل کر ڈالا اور لاش کوڑے کرکٹ میں پھینک دی تھی۔ سانحے سے متعلق حقائق منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں اشتعال پھیل گیا اورعوام کا قانون کی عمل داری پر سے اعتماد ختم ہوگیا تھا۔ میڈیا کی کاوشوں کی بدولت سفاک ملزم قانون کی گرفت میں آگیا اور عدالتوں نے اسے سزائے موت سنادی ۔جس کے بعد یوں سمجھا جانے لگا کہ شاید اس مجرم کے کیفر کردار تک پہنچنے کے بعدانسان نما درندے عبرت پکڑیں گے اور آئندہ کوئی بھی اس طرح کا واقعہ رونما نہیں ہوگا۔
لیکن یہ محض خام خیالی تھی، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین سے زیادتیوں جیسے غلیظ جرائم کی روک تھام کے لیے آج تک قوانین کو مؤثر نہیں بنایا جاسکا، ان کے نفاد اور عمل درآمد کرانے میں تساہل سے کام لیا گیاجس کی وجہ سے اس قسم کے گھناؤنے واقعات کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ اپنی کم سن بچیوں کو گھر سے باہر بھیجتے وقت ڈر و خوف کا شکار رہتے ہیں۔
چند روز قبل ٹنڈو محمد خان میں ایسا ہی ہولناک واقعہ رونما ہوا، جسے ’’جمناریادتی کیس‘‘ کہا جاسکتا ہے ۔دوسفاک ملزمان نے تیرہ سالہ گداگربچی ، جمنا کو اغوا کرکے زبردستی شراب پلا ئی اورمبینہ طور پراسے اجتماعی زیادتی کا نشانا بنایا۔ جنگ کو موصول ہونے والی طلاعات کے مطابق ملزمان دو روز تک معصوم بچی کو حس بے جا میں رکھ کراپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے، جس کی وجہ سے اس کی حالت بگڑ گئی جس کے بعد وہ اسے ٹنڈو محمد خان کے قریب شوگر مل کے گراؤنڈ میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ بچی کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھ کروہاں سے گزنے والے راہ گیروں نے پولیس کواطلاع دی، جس نے موقع پر پہنچ کر فوری طور پرساتھ سماجی و فلاحی تنظیم کی مددسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ٹنڈو محمد خان منتقل کیا جہاں بچی کاطبی معائنہ کیاگیا جبکہ اس کی تشویش ناک حالت کی وجہ سے اسے ابتدائی طبی امداد بھی فراہم کی گئی ۔اسےمزید میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے لیے سول اسپتال حیدرآباد منتقل کردیا گیا ۔اس دوران ساتھ فلاحی تنظیم کے ذمہ داران پپو بلوچ اور دیگر متاثرہ بچی کے ہمراہ سول اہسپتال حیدرآباد پہنچ گئے جہاں ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بچی ابھی نشے کی حالت میں ہے اور طبی معائنہ کروانے سے انکار کررہی ہے۔ اس دوران سماجی شخصیات اور سیاست دانوں کی بڑی تعداد بھی اسپتال پہنچنا شروع ہوگئی ۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے اسپتال پہنچ کرمتاثرہ بچی سے ملاقات کی اور اس سے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن اسپتال انتظامیہ نے متاثرہ بچی کو مزید علاج معالجے کی فراہمی کے بغیر ، فارغ کرکے واپس ٹنڈو محمد خان روانہ کردیا ۔ قومی عوامی تحریک کے چیئرمین ایاز لطیف پلیجو بھی اسی لمحے سول اسپتال، حیدرآباد پہنچے اور اسپتال انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ بچی کا طبی معائنہ اسپتال انتظامیہ کی ذ مہ داری تھی لیکن اسے اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔
دوسری جانب ٹنڈو محمد خان پولیس، جو اطلاع ملنے کے بعد سے ہی سرگرم ہوگئی تھی، اسی روز، رات گئے مختلف مقامات پر چھاپے مارکر واقعے میں ملوث دونو ںملزمان روشن شیخ اور رجب علی عرف جگنو نامی کو گرفتار کرلیا ہے جن کے خلاف تھانہ سٹی میں ایف آئی آر نمبر 123/2019کے مطابق زیر دفعہ 376,34PPCکے تحت مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔ ملزمان کی گرفتاری کے بعد انہیںذرائع ابلاغ کےسامنے پیش کیا گیا۔پولیس نے ملزمان کو مقامی عدالت میں پیش کیا جہاں سے عدالت نے دونوں ملزمان کو 4روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ۔متاثرہ بچی سجاول کے علاقے جاتی میں واقع اپنے گاؤں میں والدین کے ساتھ رہائش پذیرہے ۔ ملزمان کا 4روزہ ریمانڈ ختم ہونے کے بعدپولیس نے انہیں دوبارہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا ہے اور مزید ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے دونوں ملزمان کو4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔ پولیس کی جانب سے ملزمان سے تفتیش جاری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کامیاب تفتیش ، بیانات کی روشنی میں ملزمان کو سزا دیتی ہے یا پھر قانونی پیجیدگیوںاور ناکافی شواہد کی بناپرملزمان کو بری کردیتی ہے ۔
اس واقعے کے حوالے سے نمائندہ جنگ نے ایس ایس پی ٹنڈو محمد خان،ذوالفقار تالپور سے ان کے دفتر میں تفصیلی ملاقات کی اوراس حوالے سے مزید حقائق دریافت کیے۔ انہوں نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچی پیشہ ورگداگر ہے اور گلی محلوں میں بھیک مانگتی ہے ۔پولیس نے جب متاثرہ بچی اور ملوث ملزمان کو عدالت میں پیش کیا تو اس نے عدالت کے روبرو دونوں ملزمان کو شناخت کرلیا۔ ایس ایس پی ذوالفقار تالپور کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعہ انتہائی د ل خراش ہے،جس میں ملزمان نے ایک کم عمر اور نابالغ بچی کو زبردستی اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا ہے۔ اس قسم کے جرائم کے مرتکب افراد کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمنا زیادتی کیس میں چند مزید دفعات بھی مقدمے میں شامل کی گئی ہیں جن میں اغواء ، کم عمر بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر دفعات شامل ہیں متاثرہ بچی کا میڈیکل سرٹیفکیٹ موصول ہونے کے بعد قانون کے مطابق مزید کاروائی عمل میں لائی جائے گیے انہوں نے کہا کہ دونوں ملزمان کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروایا جائے گا انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے پولیس قانون کے مطابق اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
قانونی ماہرین کا جنسی زیادتیوں کے واقعات کے بارے میں کہنا ہے کہ زیادتیوں کا شکار بچیاں جو پہلے ہی ذہنی اذیت کا شکار ہوتی ہیں، جب انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے توبھری عدالتوں میں سب کےسامنے پوچھے جانے والے سوالات بھی متاثرہ فریق کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں جس کے باعث متاثرہ بچیاں جوکہ پہلے ہی ظلم و بربریت کا شکار ہوتی ہیں وہ مزید خوف زدہ ہوجاتی ہیں، وسری جانب ان پر اور ان کے والدین پر دباؤ ڈال کر بیانات تبدیل کرائے جاتے ہیں جس سے ملزمان کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ کیس سے بری ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پراسیکوٹرحضرات پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متاثرہ بچیوں کی قانونی طور پر رہنمائی کریں اور ان کے اندر پائے جانے والے خوف کو ختم کرنے کے لیے ان کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد انہیں مقدمات کا سامنا کرنے کی بھرپور تیاری کروائیں تاکہ ملزمان کیفرکردار تک پہنچ سکیں اور معاشرے سے اس قسم کی برائیوں کے خاتمے میںمدد مل سکے۔