بھارت میں لوک سبھا انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کردیا گیا ہے،وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحاد نے واضح اکثریت سے تاریخی فتح حاصل کی ہے جبکہ کانگریس کی قیادت میں بننے والے اپوزیشن کے اتحاد کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، کانگریس کے صدر راہول گاندھی کو سابق اداکارہ سمرتی ایرانی نے شکست دی ہے۔ رواں برس بھارت میں ووٹرز کی کل تعداد 90 کروڑ تھی جس کی بناء پر انڈین انتخابات کو دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن بھی قرار دیاگیا ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انڈیا میںہمیشہ پاکستان مخالف بیانیہ ووٹ حاصل کرنےکیلئے کارگر ثابت ہوتا رہا ہے، رواں برس بھی نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کی کامیابی کیلئے پاکستان کوبلاجواز ملوث کرنے کی کوشش کی،اسلئے بطور کنوینئر پاکستان انڈیا پارلیمانی دوستی گروپ میںنے ضروری سمجھا کہ میں حالیہ الیکشن نتائج کے حوالے سے اپنا غیرجانبدارانہ تجزیہ پیش کروں کیونکہ جب میں نے اپنے دورہ بھارت کے بعدعوامی رائے عامہ کا اندازہ لگاکر کہا تھا کہ بی جے پی تین سو سے زائد سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگی تویہاں میرے موقف سے فارن آفس، ہائی کمیشن اور میڈیا سمیت کوئی متفق نہ تھالیکن آج میرا موقف درست ثابت ہوگیا۔ نریندر مودی بھارتی سیاسی منظر نامے میں ایک ایسی کرشماتی شخصیت بن کر ابھرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جنہیں نہ صرف بھارت کے عوام کی اکثریت بلکہ عالمی برادری کی حمایت بھی حاصل ہے، اس حوالے سے مودی کے سیاسی مشیران اور میڈیا منیجرز نے انکی انتخابی فتح کی راہ ہموار کرنے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے آزمائے، مثلاََ گزشتہ الیکشن میںغریب عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے مودی ’’چائے والا‘‘بن کر سامنے آئے تو حالیہ الیکشن میںمودی نے اپنا تعارف بطور ’’چوکیدار‘‘کرایا، ایک ایسا چوکیدار جو وطن کو کرپٹ، جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر سے محفوظ رکھنے کیلئے ہردم چوکس ہےان کی دیکھا دیکھی سشما سوراج سمیت دیگرلیڈران نے بھی ٹویٹر پر اپنے نام کے ساتھ لفظ چوکیدار کا اضافہ کردیا۔سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے والے نریندر مودی کو اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے چور چوکیدار بھی قرار دیا گیالیکن مودی کی بھرپور انتخابی مہم اور عوامی حمایت کی وجہ سے کانگریس کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، تجزیہ نگاروں کے مطابق کانگریس کا وجود موروثی سیاست کی علمبردار جماعت کا بن کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف نریندر مودی جدید بھارت کے ایک ایسے قوم پرست لیڈربن کر ابھرے ہیں جنہوں نے صدیوں سے منقسم روایتی معاشرے کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی ہے،مودی کو اقلیتوں کا مخالف سمجھا جاتا ہے لیکن وقت نے نریندر مودی کو مجبور کردیا ہے کہ وہ جیت کے بعد اب اقلیتوں کا اعتمادجیتنے کی بات کریں،ہندوستان ٹائمز کے مطابق پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں اپنے حامیوں سے خطاب میں انہوں نے اقرار کیا کہ انڈیا میں اقلیت ایک فرضی خوف میںجی رہے ہیں اور یہ خوف انہوں نے پیدا کیا جو ووٹ بینک کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں،مودی نے اپنے نعرے میں تبدیلی لاتے ہوئے سب کا ساتھ، سب کے لئےترقی میں اب سب کا بھروسہ کابھی اضافہ کیا،انہوں نے اپنے خطاب میں جنگ آزادی 1857ء کا بھی حوالہ دیا کہ جیسے غاصب سامراجی قوتوں کے سامنے بھارت کے تمام طبقات نے مشترکہ جدوجہد کی تھی، اسی طرح اب انڈیا میں بہترین حکمرانی کیلئے بھی باہمی تحریک کا آغاز ہونا چاہئے۔ایک اور قابل ذکر امر انتخابی نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے کسی قسم کے دھاندلی کے الزامات لگائے بغیر خوشدلی سے قبول کرنا ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی کوتاریخی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے، انہوں نے اپنی مدمقابل امیدوار سمرتی ایرانی کو بھی جیت پر مبارک بادپیش کی۔میری نظر میں سب سے اہم واقعہ نریندر مودی کی جانب سے تاریخی فتح کے حصول کے بعد غرور و تکبر کو رد کرتے ہوئے عاجزی و انکساری اپنانا تھا، انہوں نے پارٹی کارکنوں سے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت میں بس اب دو ذاتیں ہیں، ایک غریب اوردوسرے انہیں غربت سے نکالنے کے لئے کام کرنے والے، ہمیںاب دونوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی کی فتح کے بعد عالمی لیڈران کی جانب سے مبارکبادی کے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے،مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مبارکبادی کے ٹویٹ پیغام کا مودی جی نے بھی نہایت مثبت جواب دیا۔اب نریندر مودی نے انتخابات جیتنے کے بعد اپنے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے لفظ چوکیدار ہٹادیا ہے، ان کا تازہ موقف ہے کہ اب بھارت کے عوام ہی چوکیدار ہیں اوراب وقت ہے چوکیدار کی اس سوچ کو ایک الگ سطح پر لے جانے کا۔میں پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی کے اس ماحول میں بھارت گیا جب دونوں اطراف سے بات چیت کے راستے بند کئے جارہے تھے، آج جب سرحد کے اُس پار نریندر مودی نیا بھارت بنانے کی بات کررہے ہیں تو میں مودی جی کو بتلانا چاہتا ہوں کہ یہاں بھی نیا پاکستان بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی برسراقتدار ہے جس نے ماضی کے فرسودہ دوجماعتی نظام سیاست کو شکست فاش دی ہے،الیکشن کے بعد بھارتی عوام نے ایک بار پھر مودی جی کو اپنے اعتماد سے نواز ا ہے تو اب انہیں آگے کا سوچنا چاہئے، اگرمودی اپنے خوشنماء سیاسی نعروں کو حقیقت کا روپ دھارنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اپنی چوکیدارانہ سوچ کو ایک درجہ آگے بڑھاتے ہوئے علاقائی امن اورخطے سے غربت کے خاتمہ کیلئے عمران خان کا ساتھ دینا چاہئے،میں سمجھتا ہوں کہ اب نریندر مودی کو دونوں ممالک کے مابین دیرینہ تنازعات کے پرامن حل کیلئے پاکستان کی امن کی پیشکش کا مثبت جواب دینے میں جھجھک محسوس نہیںکرنی چاہئے، بطور کنوینئر پاکستان انڈیا پارلیمانی دوستی گروپ میں بھی اس سلسلے میں دونوں ممالک کو قریب لانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے پُرعزم ہوں۔ کاش! نریندر مودی جی اپنا آئندہ الیکشن پاکستان کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ امن کے نام پرجیتیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)