• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہان القریش، جاپان

ایشیا کے ایک اہم صنعتی و معاشی طور پر مضبوط ملک ’’جاپان‘‘ کے بارے میں صاحبِ طرز شاعر و ادیب ابن انشاء نے کہا تھا کہ ’’اے صاحبو! جاپان تو جدید ہے، لیکن جاپانی اتنے جدید نہیں ہیں۔ ان کا طرزِ فکر وہی ہے کہ جو تھا۔ سلام و طعام اور نشست و برخاست سب میں سرگشتہ خمار رسوم و قیود ہیں۔ یہ نہ سمجھیے کہ چغے پہنے پھرتے ہیں یا ساری عورتیں سر پر جوڑے بنائے کمر کے پیچھے گدی باندھے پنکھا کرتی نظر آتی ہیں، کام کاج کا سارا لباس مغربی ہے کہ آسانی اسی میں ہے۔ تاہم، آپس میں سلام سر جھکا کر ہی کرتے ہیں۔ خواہ سڑک پر ٹریفک ہی چل رہا ہو اور لوگوں کا راستہ بھی رکتا ہو۔ اس کے لیے فاصلے کا بھی احترام ہے۔ مصافحے کا دستور نہیں۔ اور یہ آداب بھی مقرر ہیں کہ کس درجے کے آدمی کے آگے کتنا جھکنا چاہیے۔‘‘ ابنِ انشاء کے شاہ کار قلم سے لکھی گئی یہ سطور جاپان اور جاپانیوں کے بارے میں یقیناً ان کے طرز تحریر کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ تاہم،ہم بھی چوں کہ ایک طویل عرصے سے جاپان میں مقیم ہیں، تو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جاپان واقعی جاپان کیوں ہے۔ یہاں کے محنتی اور جفاکش لوگوں کی تیار کردہ مصنوعات اپنی پائیداری کے باعث پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ چوں کہ جاپان میں کارکنوں کو اس بات کا ہر وقت احساس رہتا ہے کہ ان کے ہاتھوں تیار شدہ مال سمندر پار ممالک کو برآمد کیا جائے گا اور اگر اس کا معیار خراب ہوا، تو جاپانی اشیاء کی اہمیت کم ہوجائے گی، نئے آرڈرز ملنے بند ہوجائیں گے اور اس کے جاپانی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانیوں کی بنائی اشیاء دنیا بھر کے لوگ مکمل اعتماد اور قلبی اطمینان کے ساتھ خریدتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکا سمیت یورپ کے ترقی یافتہ ممالک بھی جاپانی مصنوعات و دیگر اشیاء کی خریداری میں ’’میڈ اِن جاپان ‘‘ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہاں قیام کے دوران ہم نے یہ بات نوٹ کی کہ امریکا، اٹلی، جرمنی، فرانس اور دیگر ممالک سے مختلف افراداکثر و بیش تر وفود کی صورت جاپان کے طول و عرض میں قائم کارخانوں کا دورہ کرتے ہیں، جہاں خاص طور پر آج بھی پرانے طرز پر دست کاری کے ذریعے دل کش اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ انسانی کاوش یعنی ہینڈ میڈ کو تو ویسے بھی دنیا بھر میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جاپانی دست کاری کے کارخانوں کا دورہ کرتے ہوئے فرینچ میڈیا سے وابستہ ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک سن رسیدہ کاری گر نے میڈ اِن کے حوالے سے بتایا کہ ’’ہم کسی بھی چیز کو اتنی لگن اور محبت سے بناتے ہیں، جتنی لگن سے والدین اپنی بیٹی کو پال پوس کر، شان دار تربیت کرکے، بہت سگّھڑ بناکر پرائے گھر جانے کے لیے تیار کرتے ہیں کہ اس کی تربیت میں کوئی ایسی خامی نہ رہ جائے کہ آگے جاکر شرمندگی کا باعث بنے۔‘‘

دوسری جنگِ عظیم تک جاپان کا یہ حال تھا کہ ’’میڈ اِن جاپان‘‘ کا لفظ جس سامان پر لکھا ہوا ہوتا، اس کے متعلق پیشگی طور پر سمجھ لیا جاتا تھا کہ یہ سستا اور ناقابل اعتماد ہوگا۔ جاپانی سامان کی تصویر اتنی گھٹیا تھی کہ مغربی ممالک کے تاجر جاپانی ساخت کا سامان اپنی دکان پر رکھنا اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر 1949ء میں جاپان میں ایک صنعتی سیمینار منعقد کروایا گیا، جس میں امریکا کے ڈائریکٹر، ایروڈ ڈلیمنگ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنے لیکچر میں اعلیٰ صنعتی پیداوار کے لیے کوالٹی کنٹرول کا ایک نیا نظریہ پیش کیا، جسے جاپانیوں نے پوری طرح اپنایا اور اپنے صنعتی نظام کو کوالٹی کنٹرول کے رخ پر چلانا شروع کردیا۔ اور پھر جلد ہی جاپانیوں کے کارخانے بے نقص سامان تیار کرنے لگے، یہاں تک کہ حال یہ ہوگیا کہ برطانیہ کے دکان داروں کو کہنا پڑا کہ وہ جاپان سے اگر ایک ملین کی تعداد میں کوئی سامان منگواتے ہیں، تب بھی انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس میں کوئی ایک چیز بھی نقص والی نہیں ہوگی۔ دنیا بھر میں جاپانی سامان پر سو فی صد بھروسا کیا جانے لگا اور اس طرح جاپانی، امریکا ہی سے کوالٹی کنٹرول کا مذکورہ نسخہ حاصل کرکے امریکا کی منڈی پر چھا گئے۔ آج دنیا بھر میں استعمال ہونے والے الیکٹرانک آلات کے کل سامان کا 80 فی صد جاپانی ساختہ ہوتا ہے۔

دراصل، بنیادی ضروریات کی جستجو میں انسان جیسے جیسے اوزار بناتا گیا، ضروریات بھی بڑھتی گئیں، نت نئی چیزیں وجود میں آتی گئیں اور دنیا زراعت سے نکل کر صنعت میں داخل ہوگئی۔ ایسے میں جب جاپان نے نت نئی اشیاء اور بے شمار مصنوعات تخلیق کرکے دنیا بھر میں متعارف کروائیں، تو ابتدا میں اس پر یورپی اشیاء کی نقالی کا الزام بھی لگا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جاپان نے ہمیشہ کسی بھی چیز کو ترمیم و اضافے اور انتہائی مہارت کے ساتھ نہ صرف پہلے سے بہتر شکل میں پیش کیا، بلکہ ان مصنوعات اور اشیاء کو سستا، پائیدار اور آسان کر کے ساری دنیا میں عام آدمی تک پہنچانے کی رسم بھی ڈالی۔ اگر یہ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا کہ جاپان نے صرف مال ہی نہیں، ساری دنیا میں اپنا بھروسا بھی بیچا ہے۔ جاپانی انتہائی لگن، نظم و ضبط اور دیانت داری سے کام کرتے ہیں، اور اس ڈھنگ اور مہارت سے معیاری و مستند مصنوعات تیار کرتے ہیں کہ جنہیں لوگ استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ اور پھر یہ جاپان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چین، کوریا، ویتنام اور انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک سے نوجوان لڑکے، لڑکیاں بہ طور اپرنٹس یہاں سے سیکھ کر اپنے ملک کے لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، جاپانی ماہرین پر مشتمل ٹیمیں بھی اطراف کے ممالک میں میکرز کی تربیت و رہنمائی کرتی ہیں۔ چین نے جب مرسڈیز کا پلانٹ لگا کر کاریں بنانے کا آغاز کیا، تو ابتد میں نہ صرف کار کے انجن کی آواز کا شور زیادہ تھا، بلکہ دروازہ بند کرنے پر دھڑام کی آواز بھی آتی تھی۔ مزید برآں، ربر کی پیکنگ درست طریقے سے نہ کرنے کے باعث بارش کا پانی ڈکی میں چلا جاتا تھا۔ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے چین نے جب جاپانی انجینئرز سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کمالِ مہارت سے سب کچھ ٹھیک کرکے مفید مشوروں سے بھی نوازدیا کہ کس حد تک ربر کو نرم رکھنا ہے۔ اسی طرح چین اور کوریا کے کاری گر کبھی کسی معاملے میں اٹک کر الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں، تو جاپانی انجینئرز ہی کی رہنمائی اور مددسے بناوٹ کی غلطی دورکرتے ہیں۔ تاہم، یہ الگ بات ہے کہ دیگر ممالک بہت زیادہ محنت کے باوجود جاپانی طرز مصنوعات بنانے سے قاصر ہیں۔ کیوں کہ جاپان محنت کے ساتھ ساتھ تمام پروڈکٹس بہت محبت، خلوص، ایمان داری اور دیانت داری بھی سے بناتا ہے۔ اب اگرچہ چند برسوں سے جاپان نے اپنی ساری کمپنیز اطراف کے ممالک میں لگالی ہیں، جہاں جاپانی ماہرین کے تربیت یافتہ مقامی کاری گر جاپانی انچارجز ہی کے زیر نگرانی مختلف مصنوعات و دیگر اشیاء بناتے ہیں اور ان کے معیار کا بھی حد سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ میٹیریل اچھا ہوتا ہے اور تمام اشیاء انتہائی نفاست اور صفائی سے تیار کی جاتی ہیں۔اگرچہ اب جاپان بہت کم اشیاء بناتا ہےاور وہ خاصی مہنگی بھی ہوتی ہیں،مگر اس کے باوجود لوگ انہیں شوق سے خریدتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جاپان ’’ہوم انڈسٹری‘‘ کہلاتا تھا، ہر گھر میں کچھ نہ کچھ بنایا جا رہا ہوتا، ہر گلی محلے میں کارخانے تھے، ساری دنیا میں الیکٹرانکس اوردنیا بھر کی چیزوں سے جہاز بھر بھر کے جاتے۔ ہم نے بھی مختلف فیکٹریز میں کام کے دوران انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ چاہے عام مزدور، کاری گر ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد، سب ہی کو وقت کا پابند پایا۔ ملازمین عموماً وقت سے پیش تر فیکٹری یا کارخانوں میں پہنچ جاتے، جہاں ہلکی سی ورزش کے بعد ایک چھوٹی سی میٹنگ ہوتی، جس میں پرعزم کلمات ادا کیے جاتےاور کام کے دوران آنے والی مشکلات و دیگر معاملات پر غور کیا جاتا۔ اکثر فیکٹریز کے سائن بورڈز پر لکھا ہوتا ’’مکھیو زیرو‘‘ یعنی ’’ہدف برائے غلطی صفر‘‘ اورتمام جاپانی اس بات کی کوشش کرتے کہ ہمارے ہاتھ سے جو چیز بھی بن کے نکلے، وہ عیب سے پاک ہو۔ وہ معیار کا کس قدر خیال رکھتے ہیں، اس کا اندازہ اس چھوٹے سے واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب ہم جاپان میں نئے نئے وارد ہوئے تھے اور ہمیں فوٹو اسٹیٹ مشین کی فیکٹری میں ملازمت ملی تھی۔ وہاں نظم و ضبط اور وقت کی پابندی کے علاوہ ایمان داری اور دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ مشین کے کسی بھی حصّے میں ایک اسکرو تک ناقص لگنے نہیں دیتے تھے۔ اکثر الیکٹرک اسکرو ڈرائیور سے ٹائٹ کرنے کے دوران اگر ایک خراش بھی آجاتی، تو اُسے نکال کے دوسرا لگاتے تھے، حالاں کہ مشین کے اندر فِٹ ہونے اور دوبارہ کھول کر دیکھنے کے باوجود اس معمولی خراش کی جانب کسی کا دھیان تک نہیں جاتا کہ یہ اسکرو کھردرا ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچے گا کہ یہ کھردرا کیوں ہے، کام کے دوران ایسا ہوجانا ساری دنیا میں عام سی بات سمجھا جاتا ہے، مگر جاپانی ایک اسکرو بھی خراب نہیں لگاتے۔ یہاں کام کرتے ہوئے ہمیں جب کچھ عرصہ ہوگیا اور جاپانی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت بھی ہوگئی، تو ایک روز ہم نے اسی طرح کا قدرے کھردرا اسکرو لگاتے ہوئے اپنی انچارج سے کہا کہ ’’یہ تو کسی کو نظر بھی نہیں آئے گا، اپنی جگہ بالکل ٹھیک لگا ہے، ذرا سی رگڑ ہی تو لگ گئی ہے، جس کا پتا انگلی پھیرنے سے لگ رہا ہے، نظر تو آبھی نہیں رہا۔‘‘ تو ہماری انچارج نے کہا ’’کسی کو نظر آئے یا نہ آئے، مجھے تو نظر آگیا ہے ناں، جب میں اپنے لیے اسے پسند نہیں کروں گی، تو کسی دوسرے کو کیسے یہ خراش زدہ اسکرو دے سکتی ہوں، ہمیں یہ چیز بنا کے آگے پہنچانی ہے۔‘‘ یہاں کچھ عرصے کام کے دوران ہم نے دیکھا کہ معمولی سی خراش پر سیکڑوں پیس اسکریپ کردیئے جاتے تھے، حالاں کہ اگر انہیں لگا بھی دیا جاتا، تو کوئی ٹیکنیکل خرابی نہیں ہوتی۔ اور پھر مشین کے اندر کون جھانک کے دیکھتا ہے، مگر جاپانی کسی قیمت پر معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ چار سو مشینیں مقامی کمپنی کو بنا کے دینی ہیں، جہاز کی تاریخ قریب ہے، جو پیس خراب نکلے، اُن کی وجہ سے گنتی کم پڑرہی ہے، حالاں کہ اگر معمولی خراش زدہ پیسز لگادیئے جائیں، تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، ایک ہلکی سی خراش، جو کسی کو نظر بھی نہیں آئے گی اورمشین بھی ٹھیک کام کرے گی، مگر ان خراش زدہ پیسز کو رَد کرکے نئے پیسز کا انتظار ہورہا ہے، آج ہی ہر حال میں تیار مال جانا ہے، شام تک نیا مال آیا، تو ایک بار پھر سب جلدی جلدی اسمبلنگ میں جُت گئے، اور اضافی وقت لگاکے کام مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ مالک تھوڑا سا فکرمند ہے کہ اگر وقت پر ڈیلیوری نہ دی، تو پورٹ پر کھڑے جہاز کا اچھا خاصا ہرجانہ بھرنا پڑے گا۔ اسی فکر میں وہ آستین چڑھا کے خود بھی کام میں لگ جاتا ہے، شام کے چار بجنے والے ہیں، مال لوڈ کرنے کے لیے ٹرک آنے والا ہے، کام بھی تیز کرنا ہے، کوئی خرابی بھی نہیں جانے دینی۔ بالآخر اعصاب شکن محنت کے بعد مطلوبہ وقت سے کچھ پہلے ہی مال تیار ہوجاتا ہے۔ تیار مال لینے کے لیے گاڑی آنے والی ہے، اتنے میں مالک کی آواز گونجی ’’رات کا کھانا اچھے سے ہوٹل میں میری طرف سے.....‘‘

بلاشبہ، یہ ہے دیانت و امانت، فرض شناسی، محنت اور اس کے لیے اصولوں کی پاس داری، ہر سطح پر معیار برقرار رکھنے کی فکر، ساکھ بحال رکھنے کی فکر اور لگن جس نے جاپان اور جاپان کی تجارتی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ اور منڈی میں صفِ اوّل کی مصنوعات اور بااعتماد تجارتی اشیاء کی مارکیٹ میں لاکھڑا کیا ہے۔ پوری دنیا ان کی معترف ہے۔ دنیا میں ترقی اور تیز رفتار ترقی کے یہی وہ اصول اور پیمانے ہیں، جن کی بنیاد پر آج جاپانی مصنوعات کو قبولیتِ عام اور شہرتِ دوام حاصل ہے۔ قبولیت اورمقبولیت کا یہ پیمانہ قوموں کے عروج، ترقی اور بقا کا ضامن ہے، جو آج جاپان اور جاپانی مصنوعات کا خاصّہ ہے۔

تازہ ترین