• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حافظ سید عبدالکریم رضوان

بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے لے کر اکیسویں صدی کے موجودہ دورمیں اردو کے طنزیہ ومزاحیہ ادب میں جو مقبول نام گردش کر رہے ہیں ان میں ایک نام مشتاق احمد یوسفی کا بھی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی راجستھان کے ٹونک شہر میں1923میں پیدا ہوئے ۔ ان کا آبائی وطن جے پور تھا جہاں انہوں نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی پھر علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم ۔ اے اور ایل۔ ایل بی۔ کیا۔ پی۔ سی ۔ ایس کا امتحان پاس کرکے 1950تک ہندوستان میں ڈپٹی کمشنرکے عہدے پر فائز رہے۔ والدین کے ہجرت کر نے کی وجہ سے انہوں نے بھی 1950میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان کے کراچی شہر میں سکونت اختیار کی اور بینک کی ملازمت کو ذریعہ معاش بنایا۔ بینک میں مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے مشتاق احمد یوسفی نے لندن کا بھی سفر کیا۔ وہاں انہوں نے گیارہ سال گزارے اور1990میں ملازمت سے سبک دوش ہوکر کراچی میں اپنے شب وروز گزار رہے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر1955میں مضمون ”صنف لاغر” سے شروع ہوتا ہے جو لاہور سے شائع ہو نے والے رسالے’’سویرا‘‘ کی زینت بنا۔ اس طرح مختلف رسالے میں گاہے گاہے ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ۔1961میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو یک جا کر کے مشتاق احمد یوسفی کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے‘‘ کے نام سےمنظر عام پر آیا۔ان کے کل پانچ مجموعے شائع ہوئے جن کی فہرست اس طرح ہے: ’’چراغ تلے ‘‘،1961، ’’خاکم بہ دہن‘‘1970، ’’زرگزشت‘‘ ، 1972،’’آبِ گُم‘‘،1989اور’’شامِ شعرِ یاراں ‘‘ ، 2014میں۔ یہ ساری کتابیں اپنی تمام تر مزاحیہ چاشنی کے ساتھ اردو زبان وادب کے قارئین کو آج بھی مسحور کیے ہوئے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی کا نام اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے بھی ہجرت کی کرب ناکیوں کو اپنے تخلیقی شعور کے ذریعے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا حصہ بنادیا۔ ان کی تحریروں میں انشائیے ، خاکے ، آپ بیتی اور پیروڈی سب کچھ شامل ہے اور ان سب میں طنزومزاح کی وہ پرلطف روانی موجود ہے جسے پڑھ کر اردو زبان کے مزاحیہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کاگرویدہ نظر آتاہے۔مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات میں سماج کی بدلتی قدروں اورماضی کی یادوں کا منظرنامہ موجود ہے ۔

مشتاق احمد یوسفی نے جہاں اردو زبان کے مزاحیہ ادب کو فروغ دیا وہیں اس کے پسِ پردہ اپنے یادماضی کا غم بھی غلط کیا ہے۔ بہ ہر کیف اس سے قطع نظر ،اگر مشتاق احمد یوسفی کی ظرافت نگاری کا جائزہ لیا جائے تو ان کے ہاں مزاح نگاری کے ساتھ طنزیہ تحریر یں بھی وافرہیں جن میں انہوں نے سیاست ، سماج ، مذہب اورادب میں پیدا ہونے والی کج رویوں اورخامیوں کو نشانۂ طنز بنایاہے۔ ان کی طنزنگاری میں ہم دردی کا جذبہ شامل ہے۔ان کا ماننا ہے کہ جب تک انسان کسی شہر سے خوب رج کرپیار نہ کرے تب تک اس کی خوبیوں سے واقف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے وہ سماج کی ان بے راہ رویوں کی بڑی سنجیدگی کے ساتھ پیش کرتے ہیں جن سے انسانی سماج ہر روز نبردآزما ہوتا رہتا ہے ۔’’آب گم‘‘میں شامل مضمون ’’اسکول ماسٹر کا خواب‘‘ ایک ایسا ہی طنزیہ مضمون ہے جس میں انہوں نے سماج کی ان سچائیوں کو مختلف کرداروں کے ذریعے بے نقاب کیا ہے اور قارئین کو یہ سوچنے کے لیے مجبو رکیا ہے کہ سماج میں بے دھڑک جاری اس رشوت خوری کے لیے کون ذمے دار ہے، ہمارا معاشرتی نظام یا انسانی ضرورت؟ جس کے متعلق وہ مکالماتی انداز میں لکھتے ہیں:

’’ماسٹر نجم الدین برسوں سے چیتھڑے لٹکائے ظالم سماج کو کوستے پھرتے ہیں۔ انہیں ساڑھے چارسو روپے کھلائے ، جب جا کے بھانجے کے میٹرک کے نمبر بڑھے۔ اور رحیم بخش کو چوان سے مسکین کون ہوگا؟ ظلم، ظالم اور مظلوم دونوں کو خراب کرتا ہے۔ ظلم کا پہیہ جب اپنا چکر پورا کر لیتاہے اورمظلوم کی باری آتی ہے تو وہ بھی وہی کچھ کر تاہےجو اس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اژدھا سالم نگلتا ہے۔ شارک دانتوں سے خون کر کے کھاتی ہے ۔ شیر ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اچھی طرح چبا چبا کر کھاتاہے۔ بلی چھپکلی ، مکڑی اور مچھر حسب ِمقدور خون کی چسکی لگاتے ہیں۔ بھائی میرے بخشتا کوئی نہیں۔ وہ یہاں تک پہنچے تھے کہ معاً انہیں انکم ٹیکس کے ڈبل بہی کھاتے یاد آگئے۔ اور وہ بے ساختہ مسکرادیے۔ بھائی میرے بخشتا کوئی نہیں،سب ایک دوسرے کے رزق ہیں ۔ بڑے جتن سے ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے ہیں تب نظر آتی ہے اک لقمۂ تر کی صورت‘‘۔

مشتاق احمد یوسفی کی ان تحریروں نے معاشرے کی ان سچائیوں کو اجاگر کر دیا جو ہمارے معاشرے کو کسی نہ کسی طرح سے آلودہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے موضوعات کے لیے ہمیشہ انسانی زندگی کے روز مرہ کے معمولات اوران سے متعلق چیزوں سے کام لیا ہے۔ ان کی تحریروں میں پطرس بخاری کی طرح کتّےکا اور رشید احمد صدیقی کی طرح چارپائی کا بھی ذکر ہے، مگر یہ دونوں مضامین پطرس بخاری کے کتّے اور رشید احمد صدیقی کی چارپائی سے کچھ مماثلت رکھتے ہوئے بھی ان سے بہت مختلف ہیں۔ پطرس بخاری اپنے مضمون ’’کتّے‘‘ میں کتّوں سے ڈرتے ہیں۔ اس کے برعکس مشتاق احمد یوسفی نے کتّے کو پالا ہے اوراسے بہت عزیز رکھتے ہیں۔ اسی طرح جہاں رشید احمد صدیقی کی چارپائی میں بیسویں صدی کے ابتدائی دو ر کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی منظر نامے دکھائی دیتے ہیں اس کے برعکس مشتاق احمدیوسفی کی چارپائی پر بیسویں صدی کے نصف میں بدلتے ہوئے کلچر کی عکاسی کی گئی ہے۔ چارپائی اورکلچر،ان کایہ مزاحیہ اقتباس ملاحظہ کریں:

’’یہ وہی چارپائی ہے جس کی سیڑھی بنا کر سگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اورچلبلے لڑکے چڑیوںکے گھونسلے اتارتے ہیں۔ اسی چارپائی کو وقتِ ضرورت پیٹیوں سے باندھ کر اسٹریچر بنالیتے ہیں….اسی طرح جب مریض کھاٹ سے لگ جائے تو تیمار دار مؤخرالذکر کے وسط میں بڑا سا سوراخ کرکے اول الذکر کی مشکل آسان کر دیتے ہیں اور جب ساون میں کالی گھٹائیں اٹھتی ہیں توادوان کھول کرلڑکیاں دروازے کی چوکھٹ اور والدین چارپائیوں میں جھولتے ہیں۔اسی پر نومولود بچے غائوں غائوں کرتے اورچندھیاتی ہوئی آنکھیں کھول کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیںاور روتے ہیں اور اسی پر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں‘‘۔

اس مضمون میں انہوں نے جہاں چارپائی سے لیے جانے والے مختلف کاموں کا ذکر کیا ہے وہیں اس مضمون میں انہوں نے چارپائی کی مختلف قسمیں اوران کے نام بھی گنوائےہیں۔مشتاق احمد یوسفی کے اس مضمون کو پڑھ کر شاید ہی کوئی شخص نہ ہنسے، ورنہ اس کے ہر ہر جملے پر ہنسی کا فوارہ چھوٹنا تو لازمی ہے۔ ان کی مزاح نگاری کی یہ سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ وہ اپنی ظریفانہ تحریروں میں بڑی معصومیت اورسنجیدگی کے ساتھ اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ انہوں نے چارپائی کے استعارے میں جس طرح اس کی تہذیبی خصوصیت کا ذکر کیاہے اسی طرح بدلتے ہوئے سماجی دھارے کی بات کہی ہے۔ اس کے متعلق انہوں نے اشارے اشارے میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ مضمون اس تہذیب کا قصیدہ نہیں بلکہ ’’مرثیہ‘‘ ہے۔

مشتاق احمد یوسفی نے اپنی تمام تحریروں کو پر لطف اور دل چسپ بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے کو استعمال کیا ۔ ان کی تحریروں میں تاریخ ، فلسفہ، تلمیحات، کردار نگاری ، منظر نگاری، مکالمہ نگاری، اشعار کے برمحل استعمال کے ساتھ ساتھ پیروڈی کی بھی مختلف قسمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خاص طور سے انہوں نے جوا لفاظ اور اشعار کی پیروڈی کی ہے وہ تو قابل داد ہے۔’’آبِ گم‘‘ کا یہ پر لطف اقتباس دیکھیے جس میںانہوں نے اپنی فن کارانہ صلاحیت اور تراشیدہ الفاظ کے ذریعے تحریف نگاری کی ایک عمدہ مثال قائم کر دی :

’’تیسرے بچے کے بعد ان کے شوہرانہ توجہات میں فرق آگیا تھا۔ طبع آزاد نے ایک بیوی پر توکل نہ کیا۔ مدتوں زنان زودیاب کی خوش بستری میں نروان ڈھونڈھا کیے۔ جب تک بد راہ ہونے کی استطاعت رہی تنگنائے نکاح سے نکل نکل کر شب خون مارتے رہے اور بے زبان بیوی یہ سمجھ کر کے سب کچھ انگیز کرتی رہی کہ کچھ اور چاہیے وسعت میرے میاں کے لیے‘‘۔

اس اقتباس کو دیکھ کر ہم بہ خوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشتاق احمد یوسفی نے الفاظ کی تراکیب میں ہلکی سی تبدیلی کر کے کس طرح جملوں کو پُر مزاح بنادیا۔ یہ پیروڈی اپنے اند رجہاں مزاحیہ کیفیت کی روانی لیے ہوئے ہے وہیں اس میں مشتاق احمد یوسفی نے ایسے مردوں پر زوردار طنز کی چوٹ کی ہے جو اپنی آزاد طبع اور تعیش پسندی کے باعث اپنے گھروں کو تباہ وبرباد کرتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کے اسی گہرے سماجی شعور کو دیکھتے ہوئے مجنوں گورکھ پوری نے اپنے ایک مضمون میں ان کے متعلق لکھاہے:

’’یوسفی کی تحریروں کی ایک ممتاز خصوصیت یہ بھی ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کا تعلق زندگی کے عام حالات وواقعات سے ہوتاہے، وہ کبھی سبک یا سستی نہیں ہو پاتیں۔ لکھنے والے بشرے کی طرح ان کی تحریریں بھی گمبھیر ہوتی ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ان کا خالق زندگی کی اصلیت اوراس کے راز کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے‘‘۔

مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کے مطالعے سے یہ پتا چلتاہے کہ ان کی تحریروں میں ماضی کی حسین یادوں کے ساتھ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور ادبی کارفرمائیاں بھی موجود ہیں جسے انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت اور فن کاری سے اردو زبان کے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا حصہ بنا دیا۔ ان کی ان ادبی کاوشوں کو مقبول بنانے میں ان کے رنگا رنگ موضوعات کے ساتھ ان کے دلکش اندازِبیاں، شوخ اورشگفتہ طرزِ ادا کا بھی ہاتھ ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتاہے کہ مشتاق احمد یوسفی کی طنزومزاح نگاری میں ادبی لطافت کی چاشنی کے ساتھ معیاری رنگ وآہنگ بھی شامل ہے۔

(نوٹ:20جون کو مشتاق احمد یوسفی اس دنیا سے رخصت ہوئے)

تازہ ترین