اسلام آباد (رپورٹ، رانا مسعود حسین )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ دیکھیں تو ڈپریشن،چینل بدل کر کر کٹ لگائیں تو مایوسی،معیشت کی خبریں بھی مایوس کن اور عالمی سطح پر بھی بری خبریں مل رہیں،ملک میں عدلیہ کے سوا کوئی اچھی خبر نہیں ہے،پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھتے ہیں تو اپوزیشن لیڈر اور قائد ایوان کو بولنے نہیں دیا جاتا،معیشت کا سنتے ہیں وہ ICU میں ہے، اچھی خبریں نظر نہیں آرہی ہیں، عوام کو سستا اور تیز رفتار انصاف فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے، فوجداری ماڈل کورٹس نے 48 دنوں میں 5800 مقدمات کے فیصلے کئے، اب سول، فیملی، خواتین، بچوں، کرایہ اور مجسٹریٹ کی ماڈل عدالتیں بنا رہے ہیں،قتل اور منشیات کے مقدمات کے جلد از جلد فیصلے کرنے کیلئے ماڈل کریمنل کورٹس کی کارکردگی ناقابلِ یقین ہے، اب مقدمات کا التواء اور جھوٹی گواہی کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جائیگا ،مجھے ماڈل عدالتوں کے لئے سرگرم اور فعال ججوں کی ضرورت ہے،ان عدالتوں میں مجھے ملک بھر سے ایسے چیتے (جج)چاہئیں جوکہ مقدمات کو جلد از جلد نمٹا سکیں ، آئین کے آرٹیکل 37ڈی کے تحت عوام کو سستا اور تیز رفتار انصاف فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے ، سپریم کورٹ میں اس وقت 2019کی 100 کے قریب اپیلیں ہی زیر التواء ہیں،اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب یہاں پر ایک فوجداری اپیل بھی زیر التواء نہیں ہوگی ،اور وکیل سوچیں گے کہ اب کیا کریں ؟ جبکہ جج بھی انتظار کریں گے کہ کب کوئی اپیل آئے اور وہ زنجیر عدل کو ہلائیں ۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کے روز فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی، اسلام آباد میں ماڈل کورٹس کے ججوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے ارد گرد حالات،اور خطے کے معاملات سے متعلق منفی خبریں سن کرشدید افسردگی ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے مختلف حلقوں سے اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں لیکن شعبہ عدل کی جانب سے آپ کے لئے بہت ہی اچھی اچھی خبریں ہیں کہ قتل اور منشیات جیسے قبیح جرائم کے جلد فیصلوں کے حوالے سے ماڈل کورٹس نے توقع سے بڑھ کرحیرت انگیز کارکردگی دکھائی، 48 دنوں میں 5 ہزار 8 سو مقدمات نمٹاناکسی معجزے سے کم نہیں ،مجھے خود بھی ماڈل کورٹس کی کارکردگی پر یقین نہیں آرہا ہے ، اسکا سہرا سہیل ناصر اور انکی ٹیم کے سر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل اس نظام کی درستگی کیلئے کوئی ٹھوس کوششیں نہیں کی گئیں، نظام انصاف میں فوجداری اور سول مقدمات کی صورت میں دو اہم شعبے ہیں ،سول مقدمات میں فریقین اپنے گھروں میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں جبکہ فوجداری مقدمات میں ملوث ملزم سالہا سال تک جیل میں بند رہتا ہے اور کوئی اسکے بیوی بچوں کا نہیں سوچتا اور وہ بیچارے جرم نہ کرنے کے باوجود ملزم کے ساتھ ساتھ سزا بھگت رہے ہوتے ہیں ،غربت جرائم کا سبب بنتی ہے ،جب گھر کا کفیل کوئی جرم کرکے جیل میں بند ہو تو اسکی اہلیہ کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا ہے اور عام طور پر وہ ان پڑھ ہوتی ہیں اسلئے ان عورتوں کو لوگوں کے گھروں میں کام کاج پر لگا دیا جاتا ہے اور اس دوران انہیں بدسلوکی اورتشدد تک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس سے بھی آگے بعض اوقات جسم فروشی جیسے قبیح دھندے پر لگا دیا جاتا ہے ،ایسے ماحول میں بڑے ہونے والے بچے بھی بعد میں جرائم پیشہ انسان ہی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس لئے ہم نے نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سب سے پہلے فوجداری مقدمات کے نظام کو ٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں وکلاء ،پراسکیوشن اور پولیس سمیت تمام فریقین کا مکمل تعاون ملا ہے ،ہم آئندہ ہر ماہ کسی نہ کسی ضلع میں ایک نیا جج مقرر کریں گے ،ہمارے پیش نظر جھوٹی گواہی اور مقدمات میں تاخیر کے معاملات کا حل نکالنا تھا ،اب ہم نے جھوٹی گواہی کو تسلیم نہ کرنے اور التواء نہ دینے کی پالیسی اختیار کرلی ہے ، سب سے پہلے پنجاب میں ماڈل کورٹس کا تجربہ کیا گیا ،جس کے بعد ہم نے ان کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا دیا ہے ،اس وقت ملک کے 6اضلاع میں قتل اور منشیات کے زیر التواء مقدمات صفر پر آگئے ہیں جبکہ آئندہ ماہ تک مزید 10اضلاع میں بھی نمٹا دیئے جائینگے اور بتدریج ملک بھر سے ہی انہیں نمٹا دیا جائیگا ،اسکے بعد ان عدالتوں کا دائرہ کار دیگر مقدمات تک پھیلا دیا جائیگا۔