• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معلوم ہوتا ہے جیسے پاکستان کے پہلے پاکستانی فوجی سربراہ جنرل محمد ایوب خاں اپنے ہی ملک کو فتح کرکے فیلڈ مارشل اور وطن عزیز میں مارشل لاؤں اور فوجی حکومتوں کے بانی بنے ویسے ہی ڈاکٹر ، علامہ، پروفیسر اور شیخ الاسلام طاہر القادری قومی تاریخ کے لانگ مارچوں اور چلوں کی سیاست ، روایت یا بدعت کو متعارف کرانے کے ذمہ دار قرار پائیں گے اور پھر چیف جسٹس منیر کی طرح رہتی دنیا تک اپنی اس نیک کارکردگی پر دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں سے خراج تحسین حاصل کرتے رہیں گے ۔
ابھی بیس جنوری کے طاہر القادری لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے اسلام آباد میں پھیلنے والی گندگی اور غلاظت پوری طرح سمیٹی بھی نہیں گئی تھی کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے پاکستان مسلم لیگ نون گروپ کی طرف سے پارلیمینٹ کے سامنے ایک اور دھرنے اور الیکشن کمیشن تک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ۔
اگرچہ جہادی گروپ کے بعض تجزیہ نگار یہ شبہ بھی کر سکتے ہیں کہ چودھری نثار نے اس اعلان کے ذریعے اپنے اس گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہو گی جو انہوں نے محترمہ عاصمہ جہانگیر کا نام بطور نگران وزیر اعظم تجویز کرنے کی صورت میں کیا اور یو ں روشن خیالی اور سیکولرازم کے گھناؤنے الزامات کی زد میں آنے سے بچ گئے مگر اس سے بھی کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ اگر سیاست میں کوئی اچھی روایت قائم ہوئی ہے تو اسکی تقلید کی سعادت تمام سیاست دانوں کو حاصل کرنی چاہئے اور بلاشبہ علامہ طاہر القادری نے لانگ مارچ اور دھرنوں کی صورت میں قومی سیاست کو بہت اچھے اور قابل تقلید تحفے پیش کئے ہیں جن کے ڈانڈے وہ رسول اکرم کی ہجرت، امام حسین کے سفر کربلا اور ماؤزے تنگ کے تاریخی انقلابی لانگ مارچ سے ملاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ لانگ مارچ بلٹ پروف اور موسمی اثرات سے محفوظ کنٹینروں میں اور گاڑیوں میں نہیں ہوتے تھے وہ اپنی حفاظت کیلئے بے گناہ لوگوں، عورتوں اور بچوں کو بطور انسانی ڈھال بھی استعمال نہیں کرتے تھے اور ان کے مقاصد بھی اجتماعی انسانی بہبود اور سلامتی کے ہوتے تھے ۔کچھ لوگ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہو سکتے تھے کہ علامہ طاہر القادری کی تقلید میں لانگ مارچ اور دھرنوں کی تجویز چودھری نثار کی اپنی ”درفنطنی“ ہے جو سیاست دان سے ترقی کرکے ”سٹیٹس مین “ بن جانے والے میاں نواز شریف قبول نہیں کریں گے مگر پاکستان مسلم لیگ کے رہنما تو چودھری سے دوچار ہاتھ آگے چلے گئے اور مسلم لیگ کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی ملالیا بلکہ تحریک انصاف کو بھی ملانے کی کوشش کی ۔گویا اپنے محسن جنرل ضیاء کے دور حکومت کی آئی جے آئی بنانے اور سائیکل کی دوسری سواری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگے ۔ بتایا گیا ہے کہ عمران خاں نے بھی اس لانگ مارچ اور دھرنے میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا مگر بعد میں انکار کردیا بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا کچھ لوگوں کو یہ شبہ بھی ہو گا کہ چودھری نثار شریف برادران کے اربوں کھربوں روپے خرچ کروانا چاہتے ہیں مگر کیا شریف برادران ایسی فضول خرچی کے مرتکب ہو سکتے ہیں ۔ نہیں ہرگز نہیں اور دریں اثناء بلی کے بھاگو چھینکا ٹوٹ گیا ہے اور شریف برادران کی مدد کے لئے آئی آر آئی کی سروے رپورٹ مارکیٹ میں آگئی ہے جس کے مطابق مسلم لیگ نون پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی ہے چنانچہ اب کسی لانگ مارچ، دھرنے، عام انتخابات اور الیکشن کمیشن یا نگران حکومت کی ضرورت نہیں اقتدار مسلم لیگ نون کے حوالے کر دیا جائے اور پانچ سال بعد منظر عام پر آنے والی آئی آر آئی سروے رپورٹ کا انتظار کیا جائے ۔
تازہ ترین