• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: نرما

ملبوسات: فِٹ ویئر کلیکشن بائے عمران ملک

آرایش: SALEEK BY ANNIE

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

حال ہی میں ایک پوسٹ پڑھی، جس میں چند اقوال اس عنوان سے تحریر کیے گئے تھے کہ ’’چند اہم باتیں، جنہیں سُننا اور پڑھنا ہر عورت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا‘‘۔ آپ بھی سُنیے، ٭ آپ کو کوئی کم زور، کم تر ثابت نہیں کرسکتا، جب تک کہ آپ خود اُسے اس بات کی اجازت نہ دیں۔ ٭ آپ اپنے دشمنوں کے خلاف ضرور کھڑی ہوں، مگر اِس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ آپ اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔ ٭ آپ اِس سے کہیں زیادہ مضبوط ہوسکتی ہیں، جتنا آپ خود کو سمجھتی ہیں، لیکن یہ یقین رکھیں کہ آپ اُتنی خُوب صُورت ضرور ہیں، جتنی آپ خود کو نظر آتی ہیں۔

 ٭ آپ مضبوط ہیں، تخلیق کرنے اور خود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تو بلاشبہ آپ اپنی ذات میں مکمل ہیں۔ ٭ اپنے حق کے لیے بولنے سے کبھی مت گھبرائیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے آخر دَم تک لڑیں۔ ٭ ضروری نہیں کہ آپ اپنے لیے دوسروں کے بنائے تمام ہی قوانین پر عمل کریں۔ آپ اپنی ذات کو پیشِ نگاہ رکھ کے کچھ نئے قوانین، اصول وضوابط خود بھی بناسکتی ہیں۔ ٭ زندگی میں فاسٹ اور سِلو لین میں چلنا ہی ضروری نہیں ہوتا، اگر پرواز کی خواہش ہو، تو اپنے زورِ بازو پر بہت اونچی اُڑان بھی بَھری جاسکتی ہے۔ ٭جرأت، مسلز کی طرح ہوتی ہے، جس قدر استعمال کریں گی، اُسی قدر توانا ہوگی۔ ٭ یہ محض ایک غلط فہمی ہی ہے کہ انسان کسی سہارے کے بغیر بلند ترین چوٹی تک نہیں پہنچ سکتا۔

 ٭ طاقت کسی کو وَرثے میں نہیں ملتی، اسے خود ہی حاصل کرنا اورآزماناہوتاہے۔ ٭ ہم اگر بہت بڑے بڑے کام نہیں کر سکتے، تو کچھ چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی تو محبت، دل جمعی اور بہت اچھے انداز سے کیا جاسکتا ہے۔ ٭ بہت سے لوگ اپنی صلاحیتیں صرف یہ سوچ کر ضایع کردیتے ہیں کہ وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتے، حالاں کہ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ ٭ کام یابی کے لیے صرف خواب نہیں دیکھیں، اُٹھ کھڑی ہوں۔ ٭ زندگی ہماری قوتِ ارادی ہی کے تناسب سے سُکڑتی اور پھیلتی ہے۔ ٭ اگر آپ نے اپنی کشتی کی پتواریں سنبھالنا سیکھ لی ہیں، تو پھر کسی طوفان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ٭ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا کیا کرسکتے ہیں، اس کا اندازہ ہمیں تب ہی ہوتا ہے، جب ہم کچھ کر گزرتے ہیں۔ ٭ زندگی اُن سانسوں کا نام نہیں، جو ہم ایک معمول کی طرح اندر کھینچ رہے ہیں، زندگی تو اُن لمبی، گہری سانسوں کا نام ہے، جو ہم ایک سرخوشی کے عالم میں ہوا میں خارج کرتے ہیں۔ ٭ اگر کچھ کہنے کی خواہش ہے، تو مرد سے کہو اور اگر کچھ کروانا ہے، تو عورت سے کہو۔ ٭ اگر آپ کسی سے متعلق نہیں سوچتیں، تو پھر اِس بات کی پروا بھی ہرگز مت کریں کہ وہ آپ کے متعلق کیا سوچتا ہے۔ ٭ بے شک کام یابی آپ کو اپنی محنت سے حاصل کرنی پڑتی ہے، مگر اس کام یابی کے بدلے خوشی خود بخود حاصل ہوجاتی ہے۔ ٭ اگر آپ کبھی کچھ اچھا نہ کرسکیں، تو کوئی بات نہیں، ایک زوردار قہقہہ تو لگا ہی سکتی ہیں۔ اچھا نہ کرنے کا غم غلط نہ ہوگیا، تو کہیے گا۔ ٭ اور.....اگر آپ اپنی زندگی کی اوّلین چاہت، لازوال محبت، پسندیدہ ترین ہستی سے روزانہ ملنا چاہیں، تو دن میں ایک بار آئینے کی طرف دیکھنا مت بُھولیں۔

ویسے تو کم و بیش یہ سب ہی اقوال، زرّیں بھی ہیں اور سنہرے بھی۔ لیکن خاص طور پر موخرالذکر کو تو زرِ خالص سے لکھ کے اپنے پاس رکھ لیں کہ یہ جو ہم لوگ عموماً جذبات کی رَو میں بہہ کے دوسروں کے لیے ’’جان سے پیارا، زندگی سے بڑھ کر، خود سے عزیز تر‘‘ جیسی مبالغہ آرائیاں کرتے رہتے ہیں ناں، تو حقیقتاً ایسا کچھ نہیں، انسان کے لیے سب سے بڑھ کر، سب سے پہلے، سب سے پیاری اُس کی اپنی ہی ذات ہے۔ سو، سب سے ضروری بھی اُسی ذات کا خیال، دیکھ بھال، بنائو سنگھار اور سنوار و نکھار ہے، باقی سب بعد کی باتیں ہیں۔ 

بھلا دنیا میں کون ایسا ہوگا، جو اچھا نظر آنا، کہلانا نہ چاہتا ہوگا۔ لوگ تو خوشامدوں، چاپلوسیوں، جھوٹی تعریفوں سے خوش ہو لیتے ہیں، تو سچّی توصیف کِسے اچھی نہ لگے گی۔

اور.....ایک اِسی سچّی توصیف ہی کے لیے تو ہر ہفتے ہم آپ کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک بزم سجائے چلے آتے ہیں۔ ذرا آج کی محفل ہی بھی اِک نظر ہوجائے کہ آج یہ ’’اسٹائل بزم‘‘ کچھ بہت خاص یوں بھی ہے کہ اسےشوبزانڈسٹری کی چکاچوند میں کافی عرصے تک کہیں گُم رہنے والی، مگر ایک مکمل، سدابہار فن کارہ اور اپنے کتابی چہرے، بہت نشیلی، غزالی آنکھوں کے سبب بے حد مقبول، وَن اینڈ اونلی ’’نرما‘‘ نے اپنے ناز و انداز، رنگ و رُوپ سے کچھ ایسی جِلا بخشی ہے کہ خود آئینہ، آئینہ رُو میں گُم ہے۔

 شام کی تقریبات کی مناسبت سے جو رنگ و انداز منتخب کیے گئے ہیں، اُن میں طلائی رنگ، ٹی پنک اسٹائلش کام دار ملبوسات ہیں، تو سبز رنگ شارٹ شرٹ کے ساتھ خُوب صُورت بیل باٹم، میٹیلک اور چاکلیٹ برائون کامبی نیشن میں کپری کے ساتھ پیپلم اور کلیوں والی ایک اسمارٹ سی فراک بھی ہے۔ پھر ملبوسات سے عین ہم آہنگ جیولری اور سولہ سنگھار کے بھی کیا ہی کہنے۔ جیسے شاہد کمال کی غزل کے اشعار مجسّم ہی ہوگئے ہوں ؎ اپنے ہی حُسن کا عکّاس ہے حُسن.....آئینہ، آئینہ رُو میں گُم ہے.....کیف آمیز ہے کیفیتِ حال..... نشۂ مے کہ سبو میں گُم ہے.....نافہ ٔ آہوئے تاتار ہے عشق.....بوئے گُل اپنی ہی بُو میں گُم ہے.....خاک اُڑتی ہے سرِ ساحل جو..... تشنگئی نہر گلو میں گُم ہے..... یہ بھی کیا خُود ہے کہ خُود میں بھی نہیں.....یہ بھی کیا مَیں ہے کہ تُو میں گُم ہے.....مست ہوں اپنی انَا میں مَیں بھی.....اور وہ اپنی خُو میں گم ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین