چمکتی دمکتی اوردل کش رنگ برساتی پاکستان فلم انڈسٹری کے احیاء کے سلسلے میں کئی اچھی روایات سامنے آ رہی ہیں۔ ٹیلی ویژن اور فلموں میں کام کرنے والے فن کاروں میں دُوریاں کم ہو رہی ہیں۔ فاصلے مٹ رہے ہیں۔ آپس میں محبتوں اور چاہتوں کے چراغ روشن کیے جا رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ فلموں کے پریمیئرز میں فن کار ایک دوسرے کی بھرپور تعریفیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سب مل کر ایک دوسرے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگر یہی خوش گوار صورت حال رہی تو بہت جلد فلم انڈسٹری اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گی اور پھر سے اسی خوب صورت دور کی یادیں تازہ ہو جائیں گی، جب ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے کے لیے مثبت سوچ رکھتے تھے۔ ایک ہی فلم میگا اسٹار کام کرتے تھے۔
گزشتہ دنوں ہم نے پاکستانی فلموں کی ابھرتی ہوئی اسٹار آمنہ الیاس اور بالی وڈ اور لالی وڈ کی درجنوں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی مشہور اداکارہ میرا سے ملاقات کی۔ آمنہ الیاس نے فلم ’’زندہ بھاگ‘‘ میں بالی وڈ کے صفِ اول کے اداکار نصیر الدین شاہ کے مدِمقابل جم کر اداکاری کی اور خود کو بہترین فن کارہ ثابت کیا۔ بعدازاں وہ کئی ایک فلموں میں مختصر کردار میں نظر آئیں۔ ماہرہ خان اور شہریار منور کی فلم ’’سات دِن محبت اِن‘‘ میں ان کی پرفارمنس کو ناقدین نے بہت سراہا اور پھر شوبزنس انڈسٹری کے باصلاحیت ڈائریکٹر ثاقب ملک نے انہیں اپنی فلم ’’باجی‘‘ میں مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کیا۔ دوسری جانب ہمارے سامنے میرا جی تھیں، وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے درجنوں پاکستانی فلموں میں عمدہ کام کیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ علاوہ ازیں وہ بالی وڈ کی پانچ سات فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔ ہم نے آمنہ الیاس اور میرا جی سے ’’آمنے سامنے‘‘ کے لیے چند سوالات کیے، جن کے جوابات جو کچھ انہوں نے دیے، وہ قارئین کی نذر ہیں۔
جنگ: آپ نے میرا جی کے ساتھ ایک فلم میں کام کیا۔ کئی روز تک شوٹنگ کے دوران ان کے ساتھ وقت گزارا، ان کی کون سی عادتیں آپ کو اچھی لگیں اور کون سی بُری؟
آمنہ الیاس: جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ فلم میں میرا بھی ہیں، تو میں بہت پریشان ہوگئی تھی اور سچی بات بتائوں، میں ڈر بھی گئی تھی۔ ان کو سمجھنے میں مجھے تقریباً دو ہفتے لگے، لیکن، اب وہ میری سب سے پیاری بہن بن گئی ہیں۔
جنگ: میرا سنجیدہ گفتگو کم ہی کرتی ہیں۔ وہ دروانِ گفتگو کوئی نہ کوئی بات ایسی کر جاتی ہیں، جو میڈیا کی زینت بن جاتی ہے۔ آپ نے ان کو کیسا پایا؟
آمنہ الیاس: جس طرح اُن کو میڈیا پیش کرتا ہے، وہ ان کی شخصیت سے بالکل مختلف ہے۔ کیمرے کے سامنے میرا بالکل بدل جاتی ہیں ۔اپنے کام کو بہت سنجیدگی، توجہ اور جنون کے ساتھ کرتی ہیں۔ شوٹنگ کے دوران وہ بُھول جاتی ہیں کہ وہ میرا ہیں، وہ ہدایت کار کی جانب سے ملنے والے کردار میں ڈوب جاتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا میں ان کے بارے میں جو آتا ہے، وہ غلط ہے۔ میں ان کی خیرخواہ ہوں۔ زندگی نے ان کو ایک موقع دیا ہے کہ وہ ایک پھر خود کو بہترین فن کارہ ثابت کریں۔ اسکرین پر جو اچھا کام کرتا ہے، لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ وہ ہماری سینئر اداکارہ ہیں اور کئی نامور ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ حقیقتت ہے کہ جب تک ہم ایک دوسرے کے کام کو تسلیم نہیں کریں گے، فلم انڈسٹری آگے نہیں بڑھے گی۔
جنگ: میرا کا کہنا ہے کہ ثاقب ملک نے شوٹنگ کے دوران زیادہ توجہ آپ پر دی۔ کیا یہ سچ ہے؟
آمنہ الیاس: یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ ہم دونوں کو برابر کا ملا۔ یہ ہر فن کار کا مسئلہ ہوتا ہے کہ اسے کم توجہ دی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میرے سین کم کر لیے گئے ہیں۔ فلم ڈائریکٹر کامیڈیم ہوتا ہے۔ فلم کی بہتری کے لیے جو وہ کرتا ہے، اسے بہتر سمجھا جاتا ہے۔
جنگ: آپ نے نصیر الدین شاہ، شہریار منور اور عثمان خالد بٹ کے ساتھ فلموں میں کام کیا، کس اداکار کے ساتھ کام کرنا زیادہ اچھا لگا؟
آمنہ الیاس: میرے لیے سب اچھے ہیں، کیوں کہ میری پُوری توجہ اپنے کردار کو بہتر بنانے پر ہوتی ہے۔ ہر فلم میں کچھ سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔
جنگ: میرا اچھی ڈانسر ہیں یا پھر آپ کو اس فن میں زیادہ مہارت حاصل ہے؟
آمنہ الیاس: اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میرا بہت اچھی فن کارہ ہیں اور وہ رقص میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ مجھ سے زیادہ اچھی ڈانسر ہیں۔انہوں نے درجنوں فلموں میں اعضاء کی شاعری کی ہے۔
جنگ: آپ نے میرا کی کوئی فلم سنیما گھر جا کر دیکھی؟
آمنہ الیاس: فلم سنیما گھر جا کر تو نہیں دیکھی، البتہ میرا کی بالی وڈ مووی ’’نظر‘‘ ضرور دیکھی تھی، مجھے وہ فلم اچھی لگی تھی۔
جنگ: آپ کے پسندیدہ فن کار کون سے ہیں اور کس ڈائریکٹر کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ہے؟
آمنہ الیاس: ماہرہ خان، مہوش حیات، حمزہ علی عباسی اور ہمایوں سعید اچھے لگتے ہیں۔ ان کی فلمیں بھی شوق سے دیکھتی ہوں۔ راج کمار ہیرانی میرے پسندیدہ ڈائریکٹر ہیں، لیکن میری خواہش ہے کہ میں احسن رحیم کی کسی بھی فلم میں کام کروں۔
جنگ : میرا، آپ کو آمنہ الیاس کی کون سی عادتیں اچھی لگتی ہیں؟
میرا: میری بہنیں بیرون ملک رہتی ہیں۔ اس لیے میں نے آمنہ الیاس کو اپنی چھوٹی بہن بنا لیا ہے۔ پچھلے دو برس میں ان کے ساتھ بہت وقت گزارا۔ وہ دل کی بہت اچھی ہیں۔ دل چسپ اور پیاری پیاری باتیں کرتی ہیں اور خُوب ہنساتی ہیں۔ ان کی باتوں میں وقت کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ البتہ کبھی کبھی وہ ناراض بھی ہو جاتی ہیں۔ شوٹنگ کے دوران ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہم حقیقت میں بھی ایسے ہیں۔ میں آمنہ سے دل سے پیار کرتی ہوں۔ میری دُعا ہے کہ وہ شہرت کی بلندیوں کو چھوئے۔ پاکستان اور فلم انڈسٹری کا نام روشن کرے۔
آمنہ الیاس: میرا میری اتنی تعریفیں نہ کرو، ’’بچی کو رلائے گیں کیا‘‘۔
جنگ: آمنہ زیادہ اچھی ڈانسر ہیں یا آپ سے رقص میں کوئی جیت نہیں سکتا؟
میرا: میں کھلے دل سے اعتراف کرتی ہوں کہ آمنہ مجھ سے بڑی ڈانسر ہیں۔ وہ مستقبل میں بڑی فن کارہ کے روپ میں سامنے آئیں گی۔ کوئی بھی فن کار جب اپنے سینئرز کا ادب کرتا ہے، تو زیادہ کام یابی حاصل کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ناں!! ’’باادب با نصیب بے ادب بے نصیب‘‘۔
جنگ: آپ نے ایک گانے میں بابرہ شریف کو بھی ٹریبیوٹ دیا ہے، یہ خیال کیسے آیا؟
میرا: آمنہ الیاس اور میں نے مشہور پاکستانی فلم ’’نوکر‘‘ کے مقبول گیت ’’یہ آج مجھ کو کیا ہوا‘‘ میں بابرہ شریف کو ٹریبیوٹ دیا ہے۔ میں بابرہ کی بہت بڑی فین ہوں۔ 1974 میں ’’نوکر‘‘ کا یہ گیت ناہید اختر کی آواز میں بابرہ شریف پر فلمایا گیا تھا۔ اور اب ڈانس ڈائریکٹر نگاہ حسین نے اس گانے پر آمنہ الیاس اور مجھ سے رقص کروایا ہے۔ پاکستان کی فلموں کا میوزک ماضی میں بہت شان دار ہوا کرتا تھا۔ آج کل کی فلموں میں اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ مجھے تو آج کل کی فلمیں زیادہ اچھی نہیں لگتیں۔ ماضی میں فلمی گیت گلی گلی کوچے کوچے مشہور ہوتے تھے۔ وہ گیت آج بھی اچھے لگتے ہیں اور سماعتون میں رس گھولتے ہیں۔
جنگ: کیا اب بابرہ شریف کو فلموں میں کام کرنا چاہیے؟
میرا: بابرہ شریف کو فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے میدان میں آنا چاہئے، جس طرح بھارت میں ریکھا، مادھوری ڈکشت وغیرہ کام کر رہی ہیں، ان کو بھی کام کرنا چاہیے۔ فلم انڈسٹری نے ان کو بہت عزت سے نوازا ہے۔ڈائریکٹر ان کو فلموں میں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ پروڈیوسرز سے زیادہ سرمائے کی ڈیمانڈ کرتی ہیں۔ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لالچ بُری چیز ہے۔ لالچ فن اور رشتوں کو دیمک کی طرح نقصان دیتی ہے۔ انڈسٹری کی بہتری کے لیے انجمن اور بابرہ کو فلموں میں کام کرنا چاہیے۔ زیبا بختیار بھی اچھی فن کارہ ہیں، ان کو کام کرنا چاہیے۔
جنگ: آپ کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر نے آمنہ الیاس پر زیادہ توجہ دی۔ کیا یہ حقیقت ہے؟
میرا: آج کل ڈائریکٹر نئی لڑکیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ثاقب کی میں دل سے عزت کرتی ہوں۔ ان کو مہیش بھٹ اور یش راج کا درجہ دیتی ہوں، لیکن انہوں نے میری باتوں اور مشوروں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں نئی نسل میری فلمیں دیکھیں گی اور پسند بھی کریں گی۔ ایک مرتبہ پھر میری فلم ’’کھلونا‘‘ والا دور واپس آ رہا ہے۔
جنگ: ہم نے سُنا ہے کہ آپ خود بھی فلمیں پروڈیوس کرنا چاہتی ہیں؟
میرا: میں نے موجودہ حکومت کو درخواست دی ہے کہ وہ مجھے سو کروڑ روپوں کا قرضہ دے دیں تاکہ میں دس بارہ معیاری فلمیں بنائوں۔
جنگ: پاکستان فلم انڈسٹری کا مستقبل کیسا دیکھ رہی ہیں؟
میرا: میرا عشق تو فلم انڈسٹری کے ساتھ ہے۔ میں تو ہر حال میں اسے ترقی کرتا دیکھنا چاہتی ہوں۔ سینما اسکرین کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ میں نے ساری زندگی فلم انڈسٹری کی کام یابی کے بارے میں سوچا ہے۔
جنگ: آپ نے جن ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا، ان میں زیادہ اچھا کام کرنے کا موقع کس نے دیا؟
میرا: عالیہ بھٹ کی والدہ سوہنی، ثمینہ پیرزادہ اور سنگیتا بیگم کی ڈائریکشن میں بہت سیکھنے کا موقع ملا۔ ان شخصیات نے میرے فن کو نکھارا ہے۔