• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلوں میں رنگ بھرے..... کتاب اور فلم کے مابین تخلیقی روابط کی کہانی

دنیا میں کتب بینی کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ اس کی مقبولیت میں اُتار چڑھائو بھی آئے۔ عہدِ حاضر میں ایک طرف ہمارے ہاںجہاں ٹیکنالوجی نے اپنا طلسم جگایا تو وہیں کتاب سے دوری بھی پیدا ہوئی۔ کتب بینی اور تخیل کے درمیان مضبوط رشتہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مطالعہ کو کلیدی حیثیت حاصل رہی، لیکن پھر بتدریج مختلف النوع کی ٹیکنالوجی نے قارئین کی توجہ کو منتشر کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ اب دراز ہوتاچلاجارہا ہے۔،جس کو سوشل میڈیا کے استعمال سمیت دیگر میڈیمز کی شکل میں دیکھاجاسکتاہے۔

ابتدا میں ریڈیو کی آمد ہوئی، لیکن اس سے بہرحال سامع کا تصوراتی تعلق برقرار تھا، کسی بھی کہانی یا ڈرامے کوسماعت کرکے تخیل کی مدد سے اس میں اپنے تصور کا رنگ بھرا جاتا تھا، سماعی حد تک یہ بات قابل قبول تھی، پھر ٹیکنالوجی نے جب کئی بصری درجات طے کیے، یعنی ٹیلی وژن کی آمد آمد ہوئی، توکتاب سے قاری کا سلسلہ ٹوٹنے کی شروعات ہوئی، حالانکہ تھیٹر کے منچ پر پیش کیے جانے والے ڈرامے بھی کسی حد تک قاری کو جکڑے رکھتے تھے، لیکن تھیٹر اور ریڈیو نے کتاب اور قاری کے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیا، مگر ٹیلی وژن آنے کے بعدقاری کی توجہ پر ضرب پڑی اور وہ مطالعہ یاسماعی عمل کے ذریعے تخیل کے راستے سے دھیرے دھیرے ہٹنے لگا، یوںمطالعہ کی بجائے مشاہدے پر اس کی توجہ مرکوز ہوگئی۔ مطالعہ اور مشاہدے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مطالعہ کی سرگرمی آپ میں تخلیقی جوہر پیدا کرتی ہے، جبکہ مشاہدہ صرف آپ کو سوچنے کے لیے دستیاب عکس ہی مہیا کرسکتا ہے اور خیال کو محدود دائرے میں دکھا پاتا ہے۔ یہی ادب اورفلم کے درمیان واضح فرق ہے۔

ٹیکنالوجی نے جب مزید ترقی کی تو فلم کا شعبہ تخلیق ہوا،جس میں فیچر اور دستاویزی فلموں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ توجہ ملی۔ موجودہ دور میں فیچر فلم سب سے مقبول میڈیم ہے، جس کے ذریعے فلم بین اپنے ادبی ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں،مگر غور سے دیکھا جائے تو فلم کا شعبہ بھی تصنیف وتالیف کا محتاج ہے، آج بھی تمام تر جدید سہولتوں سے آراستہ ہونے کے باوجود اسے ایک اچھی کہانی اور اسکرپٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک ایک اچھا اسکرپٹ نہ ہو، بہترین فلم بنانا ممکن نہیں ہے، یہی وجہ ہے، دنیا بھر کی فلمی صنعتوں میںگلوں میں رنگ بھرے کی مانند، ادیبوں کی براہ راست خدمات حاصل کی گئیں یا پھر ان کی کہانیوں سے بالواسطہ اور بلاواسطہ استفادہ کیا گیا، ان کہانیوں میں فلمی پردے پر تخیل کے نئے رنگ بھرے گئے۔ مشرق اور مغرب دونوں کی فلمی دنیائوںمیں ایسی متعدد مثالیں مل جائیں گی، جہاں کلاسیکی اور جدید ادب کو بنیاد بنا کر فلمیں بنیں، بعض اوقات کسی ناول اور افسانے کے مرکزی خیال کو مستعار لیا گیا اور کہیں ناول کے مکمل پلاٹ اور کرداروں کے سامنے رکھتے ہوئے فلمیں بنائی گئیں، صرف یہی نہیں بلکہ بعض اوقات سوانحی اور نیم سوانحی انداز میں ادیبوں کی زندگیوں کوبھی فلم کے پردے پر بیان کیا گیا۔

اس پس منظر سے اندازہ ہوتاہے، ادب سے قاری دور نہیں ہوا، بلکہ اس کی توجہ ایک میڈیم سے دوسرے میڈیم پر منتقل ہوگئی ہے۔ پہلے کتاب کی صورت میں وہ شعرو ادب اور دیگر تخلیقی جہتوں سے روشناس ہوتا تھا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ پڑھ کر سوچنے کی بجائے، دیکھ کر سمجھنے کی سرگرمی نے سہل پسندی پیدا کی، مگر پھر بھی ادبیت کااثرزائل نہ ہوسکا اور آج تک فلم اورفکشن کے مابین ایک مضبوط تعلق موجود ہے، جس کو ہم فلمی پردے پر دیکھ سکتے ہیں، وہ مجسم ادبی رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صرف ادب ہی نہیں عالمی سیاست بھی فلمی پردے پر اپنے اثرات مرتب کرتی دکھائی دیتی ہے، مثال کے طور پر امریکی جنگی سیاست جدھر کا رخ کرتی ہے، ہالی ووڈ میں اُسی طرف کی کہانیاں اور کردار تخلیق ہونے لگتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد ویت نام، افغانستان، پاکستان اور عراق سمیت دیگر ممالک کے پس منظر میں بننے والی فلمیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیںکہ کس طرح امریکی فلمی صنعت اپنی ملکی جنگی سیاست کے بیانیے میں اپنی فلموں کے ذریعے نئے رنگ بھر رہی ہے۔ بہرحال سینما کی تاریخ میں بہت ساری فلمیں ایسی ہیں، جن کی کامیابی کی مرکزی وجہ ان کا اسکرپٹ تھا ۔ ایسے کامیاب اسکرپٹس کوکسی نہ کسی ناول پر بنیاد بنا کر لکھا گیا۔ کچھ ناولوں سے صرف کہانی ماخوذ کرکے فلمی ضرورت کے مطابق ڈھال لیا گیا۔ کچھ فلمیں تھیٹر کے لیے لکھی گئی کہانیوں سے مستفید ہوئیں، جبکہ ادب کی دیگر کئی تحریروں اور واقعات کو بھی فلمانے کی مثالیں موجود ہیں۔ سینما کے ابتدائی دور سے لے کرآج تک ناو لو ں اورادبی کھیلوں سے استفادہ کرنے کا سلسلہ قائم ہے۔ عالمی سینما میں کئی کردار تو ایسے ہیں، جن کی شہرت کو سینما کی مرہون منت سمجھا جاتا ہے، مگر درحقیقت وہ کسی نہ کسی ناول کی تخلیق ہیں، یا ان کا تعلق کسی نہ کسی طورپر ادب سے متعلق ہی ہے، بلکہ کئی ایسے ادیب اورکہانی نویس بھی ملیں گے، جنہوں نے فلمی دنیا کے راستے سے ہوکر ادب کے شعبے میں شہرت حاصل کی۔ ہندوستانی سینما میں معروف شاعر، کہانی نویس اور فلم ساز گلزار اس کی روشن مثال ہیں۔

کسی بھی فلم کی تخلیقی جان اس کا اسکرین پلے اور مکالمہ ہوتا ہے، ان دونوں کے بغیر فلم ادھوری ہے اور یہ دونوںناول کے بنیادی پہلو ہیں، جس میں منظر نگاری ، مکالمہ، کرداروں کے مابین ٹکرائو کی کیفیت اور اس کی مدد سے کہانی کو آگے بڑھانا مقصود ہوتا ہے، اب اس میں ناول نگار ہو یا فلم نگار، دونوں ایک ہی طرح کے ادبی اصولوں کو برتتے ہیں، اس تجربے کے نتیجہ میں کبھی تو کتاب کے بیانیے سے زیادہ فلم کی پیشکش لطف دیتی ہے تو کبھی فلم وہاں تک پہنچ ہی نہیں پاتی، جہاں تک کتاب قاری کو لے جاتی ہے، اب یہ منحصر ہے ادیب اور فلم ساز پر، کس دیے میں جان زیادہ ہے، جو اپنی روشنی سے قاری اور ناظر کا ذہن روشن کر سکتا ہے، یہ تجربات اب بھی ہو رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال رواں مہینے یعنی جون 2019 میں ہالی ووڈ سے ریلیز ہونے والی فلم’’الہٰ دین‘‘ ہے، جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہوکر کچھ دنوں میں ہی کروڑوں ڈالر کا بزنس کرلیا ہے۔

الہٰ دین مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والاعربی ادب کی لوک کہانیوں کا ایک کردار ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے ، اس کہانی کو اٹھارہویں صدی میں معروف داستانی ادب’’ایک ہزار ایک راتیں‘‘ جس کو الف لیلیٰ کی داستان بھی کہا جاتا ہے، ان کہانیوں کے مجموعہ میں ایک فرانسیسی مدون انٹوائن گیلینڈ نے شامل کر دیا تھا، جس کے بعدیہ کہانی الف لیلیٰ کی داستان کا حصہ سمجھی جانے لگی، لیکن درحقیقت یہ ایک الگ کہانی ہے، جس کا الف لیلیٰ کی داستان میں پیش کی گئی کہانیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔

زیر نظر کہانی اور نئی فلم’’الہٰ دین‘‘ کا مرکزی خیال یہ ہے، کہانی کا ہیرو جو دراصل افسانوی کردار ہے اور اس کا نام الہٰ دین ہے، وہ ایک ایسا چراغ حاصل کر لیتا ہے، جس کو رگڑنے سے جن حاضر ہو جاتا ہے، جو اس کی ہر خواہش پوری کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اسی خیال کے تانے بانے سے کہانی قاری کو ایک طلسماتی اور حیران کن دنیا میں لے جاتی ہے۔ اس کہانی کو نہ صرف عربی ادب بلکہ بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی، خاص طور پر بچوں کے ادب میں اس کہانی سے شاندار باب کا اضافہ ہوا، اس کی شہرت کے بعد کئی ادیبوں نے اس خیال سے ملتی جلتی کہانیاں بھی لکھیں۔

فلم سازی کی ابتدا میں اس کہانی کی عالمگیر شہرت کو سامنے رکھنے ہوئے اس پر براہ راست اور ماخوذ شدہ متعدد فلمیں بھی بنائی گئیں۔ خاموش فلموں کے دور میں اس کہانی کو بنیاد بنا کر امریکی فلمی صنعت (ہالی ووڈ) میں پہلی مرتبہ 1924 میں’’دی تھیف آف بغداد‘‘ یعنی بغداد کا چور کے عنوان سے خاموش فلم بنائی گئی، اس فلم کے ہدایت کار رائول والش تھے جبکہ اس کا اسکرین پلے ڈگلس فیئربینکس اور احمد عبداللہ نے مشترکہ طور پر لکھا تھا۔ 16 برس بعد اسی عنوان سے برطانوی سینما میں تین ہدایت کاروں نے مل کر اس قصہ گوئی کی داستان کو فلمی پردے کی زینت بنایا، ان تینوں ہدایت کاروں کے نام مائیکل پائول، لڈوگ برجر، ٹم ویلان تھے جبکہ لوئس برو اور میل میلسن نے فلم کا اسکرین پلے لکھا تھا، اس فلم کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور 1947 میں اس کو دوبارہ نمائش کے لیے بھی پیش کیا گیا تھا۔

اس کے بعد 50 اور 60 کی دہائی میں بھی اس کہانی پر کئی فلمیں بنیں اور 1992بننے والی اینیمیٹیڈ فلم کے ذریعے اس کہانی کو دوبارہ عروج حاصل ہوا، بالخصوص بچوں میں اس کی مقبولیت بڑھی، مزید وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلم کے ذریعے سے پیش کی جانے والی یہ کہانی اسٹیج کی زینت بھی بنی۔ اب 27 سال کے بعد ڈزنی فلمز نے اس پر تازہ فیچر فلم تخلیق بنائی ہے، جو حالیہ دنوں نمائش کے لیے پیش کی گئی، اس کو باکس آفس پر شاندار کامیابی ملی ہے۔ بی بی سی اردو کے مطابق اس فلم کی تکمیل کے لیے 2000 سے زائد فنکاروں کے آڈیشنز لیے گئے، جن میں سے منتخب فنکاروں نے اپنی فنی صلاحیتوں سے اسکرین پر بھی جلوہ گر ہوکر اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔ ان فنکاروں میں ہالی ووڈ کے معروف اداکاروِل سمتھ سر فہرست ہیں، انہوں نے فلم میں الہٰ دین کے جن کا کردار نبھایا ہے، جبکہ الہ دین اور یاسمین کے مرکزی کرداروں میں مینا مسعود اور نائومی اسکاٹ کا انتخاب کیا گیا، جو فلمی دنیا کے نئے چہرے ہیں لیکن وہ فلم بینوں کے ذہنوں پر نقش ہوگئے ہیں۔

فلم میں الہٰ دین کے مرکزی کردار کے لیے معروف پاکستانی نژاد برطانوی اداکار رز احمد کا نام بھی زیر غور تھا۔ فلم کے ہدایت کارگائے رچی نے اس نو عمر فنکار جوڑے کی تلاش میں بہت وقت لگایا تب کہیں جاکر ان کو مطلوبہ فنکار میسر آئے۔ مینا مسعود مصری نژاد کینڈین اداکار ہیں جبکہ نائومی اسکاٹ اینگلو انڈین نژاد برطانوی اداکارہ ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر اداکاروں کومنتخب کرتے وقت ان کے نسلی پس منظر کا خیال رکھا گیا ہے، تاکہ کہانی کے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرا جاسکے، جس طرح فلم میں جعفر کے کردار کے لیے تیونس نژاد ڈچ اداکار ماروان کنزیری، ایرانی نژاد امریکی اداکار نوید نگہبان اور سلطان کے کردار کے لیے نسیم پیدرد جبکہ حکیم کے کردارکے لیے ترک نژاد جرمن اداکار نعمان ایکرکا انتخاب کیا گیا۔ مصر اور برطانیہ میں فلمائی جانے والی دیکھنے والوں کو مسحور کر لیتی ہے۔ اس کہانی کے ساتھ فلم میں پوری طرح انصاف کیا گیا ہے۔

کتاب سے فلم تک کے سفر میں بنیادی بات تخلیق کی ہے۔ ناول، افسانہ اور کہانی پڑھتے ہوئے قارئین کے ذہنی پردے پر فلم چل رہی ہوتی ہے، لیکن جب کوئی فلم ساز اس کو تصویر دینے کی کوشش کرتا ہے تو قاری ایک ناظر کی حیثیت سے بغیر کسی تصوراتی سہارے کے، براہ راست فلمائی گئی کہانی کو دیکھتا ہے، اب اس طرح کے تجربے میں یا تو کہانی کو چار چاند لگ جاتے ہیں یا پھر وہ کہانی اپنے ہی حسن سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایک ادیب سے زیادہ فلم ساز کا کام مشکل ہے کہ وہ دیکھنے والے کی توقعات پر پورا اترے، جس طرح تازہ ترین فلم الہٰ دین فلم بینوں کی امیدوںپر پوری اتری ہے۔ فلم سے فکشن تک کا یہ سلسلہ مستقبل قریب میں مزید دراز ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جو عہدجدید کی ضرورت ہے اورتخلیقی دنیا کا نیا تمثیلی حسن بھی، جس کو برقرار رہنا چاہیے۔ 

تازہ ترین