• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتیں جو بجٹ پیش کرتی ہیں انہیں سوائے ’’الفاظ کا گورکھ دھندا‘‘ کہنے کے اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ یادش بخیر! ہلاکو خان نے بغداد پر قبضے کے بعد معتصم باللہ کے سامنے برتنوں میں سونا، چاندی اور ہیرے جواہرات رکھ دئیے جو اس کی فوج نے معتصم کے محلات سے ہی اُتارے تھے اور کہا: ’’جناب عالی! آپ نے جو کچھ جمع کر رکھا تھا اب اسے تناول فرمائیے‘‘۔ معتصم نے تعجب سے ہلاکو خان کی طرف دیکھا اور کہا: ’’بھلا میں یہ کیسے کھا سکتا ہوں؟‘‘ اس پر ہلاکو نے شرارت آمیز لہجے میں کہا ’’تو پھر آپ نے اسے اتنی حفاظت کے ساتھ کیوں رکھا تھا؟‘‘ ہلاکو نے محل کے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی اور پھر سونا چاندی اور ہیرے، جواہرات سے لبریز دیوہیکل صندوقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معتصم سے کہا: ’’آپ نے ان صندوقوں کے فولاد سے اپنی فوج کے لئے تیر اور تلواریں کیوں نہ بنوائیں؟ اگر تم انہیں اپنی سپاہ اور عوام پر خرچ کردیتے تو آج میرے سپاہی اتنی آسانی سے تمہارے محل کی چوبیں نہ اُکھاڑتے‘‘۔ یہ سن کر معتصم سے کوئی جواب نہیں بن پارہا تھا۔ بے بسی کے عالم میں جواب دیا: ’’شاید مشیتِ ایزدی یہی تھی‘‘۔ تاتاریوں کے خاقان نے کہا ’’اچھا! تو اب ہم آپ سے جو بھی سلوک کریں اسے بھی مشیتِ الٰہی ہی سمجھنا‘‘۔ یہ طنز سن کر معتصم کی آنکھیں شرمندگی اور ندامت سے جھک گئیں۔ جب پاک وطن پر منڈلاتے سیاہ بادل، حکمرانوں کے عیش و عشرت اور سسکتے بلکتے غریبوں کی خستہ حالی دیکھتا ہوں تو نجانے کیوں میرے کانوں میں ہلاکو اور معتصم کی یہ گفتگو گونجنے لگتی ہے۔ اس وقت بھی حکمران عیش و عشرت میں تھے اور غریب عوام کی حالت دگرگوں تھی۔ ایک دانش ور نے کہا تھا: ’’جہاں انسانیت کا معیار روپیہ ہو وہاں یہ بات قریب قریب ناممکن ہے کہ عوام پر انصاف سے حکومت کی جائے اور وہ خوشحال اور آسودہ ہوں۔ جہاں مٹھی بھر دولت مند سب کچھ آپس میں بانٹ لیں وہاں عوام کو خوشحالی کیسے نصیب ہوگی؟‘‘ پاک وطن میں مہنگائی کی یہ حالت ہے کہ غریب عوام مجبور ہو کر عزلت اور خسیس ترین حالت میں ہیں۔ مجھے آپ ﷺکا وہ فرمان یاد آرہا ہے جس میں آپ نے فرمایا: ’’بے روزگاری اور فقر و فاقہ کفر تک کا سبب بن سکتی ہے‘‘۔ دوسری طرف حکمرانوں کے ہاں اسراف کی حالت یہ ہے کہ ایک اہم شخصیت کے طوطے کا پنجرہ پچیس لاکھ میں تیار ہورہا ہے۔ صرف یہی رقم بچاکر سسکتے، بلکتے غریبوں پر خرچ کی جائے تو بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی کرنے والوں میں سے کئی افراد جان بچائی جاسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں خودکشی کے رجحانات میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے۔ جب غریب شخص محسوس کرتا ہے کہ میرے بیمار بچے کے لئے تو اسپتالوں میں دوا تک نہیں اور حکمراں لاکھوں روپے پانی کی طرح بہائےرہے ہیں تو پھر اس کے پاس بس دو ہی آپشن باقی رہ جاتے ہیں: خودکشی یا بغاوت۔ وہ ایسی بغاوت کرتا ہے کہ مرنے مارنے پر اُتر آتا ہے۔ غریب آدمی اپنے بال بچوں سمیت سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے لیکن نتیجے میں وہ ان کے لئے مناسب رہائش، خوراک، صحت اور کپڑے کا بھی بندوبست نہیں کرسکتا۔ اگر وہ خوراک کا انتظام کرتا ہے تو گھر کا کرایہ رہ جاتا ہے۔ اگر وہ اسپتال کے بل ادا کرتا رہے تو یوٹیلیٹی بل رہ جاتے ہیں۔ اس منہ زور اور بدترین مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام زندہ درگور ہورہے ہیں۔ عوام کو تو بس آئے دن صرف اسی طرح کی ’’خوشخبریاں‘‘ سننے کو ملتی ہیں: ’’حکومت نے غربت ختم کرنے کی حکمت عملی کی دوسری دستاویز کا ابتدائی مسودہ امددای اداروں اور پاکستان کے ترقیاتی شراکت داروں کے حوالے کردیا ہے۔ جس میں آئندہ برسوں کے دوران تعلیم، اور صحت سمیت معیشت کے تمام کے تمام شعبوں میں مزید بہتری لانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے‘‘ سروے کے مطابق ہزار جتن کے باوجود پاکستانی عوام کی معاشی حالت تبدیل ہوئی اور نہ ہی بہتری کی کوئی اُمید ہے۔ یاد رکھئے! کسی بھی ادارے اور ملک کی اصل طاقت عوام ہی ہوتے ہیں۔ عوام کا خوشحال ہونا ہی دراصل ملک اور اس کے حکمرانوں کا خوشحال ہونا ہے۔ عوام کا سُکھ ہی درحقیقت ملک اور اس کے فرمانروائوں کا سُکھ ہوتا ہے۔ ہماری سنہری تاریخ میں ایسے کئی حکمران گزرے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ اول تا آخر رعایا اور عوام ہی کو سمجھا۔ اس عہدِ زرّیں میں قوم کے ہر فرد کو اختیار تھا کہ وہ حکمراں سے سرِ راہے پوچھ سکے کہ فلاں پالیسی کیوں بنائی گئی؟ اور اُس وقت کے حکمران خود بھی راتوں کو بھیس بدل بدل کر اپنے عوام کا حال معلوم کیا کرتے تھے۔ کئی واقعات اس کے شاہد ہیں۔ کاش! ہمارے حکمراں بھی کبھی روپ بدل کر کسی یتیم خانے جائیں۔ کسی اسپتال جائیں۔ کسی غریب بستی جائیں۔ کسی گائوں کے اسکول جائیں۔ کسی مارکیٹ جائیں۔ کسی تھانے جائیں تو معلوم ہو کہ ملک میں امن وامان کی اصل صورتِ حال کیا ہے؟ اسٹریٹ کرائمز نے کس طرح مسافروں کو پریشان کر رکھا ہے؟ ایک ایک دن میں سیکڑوں گاڑیاں، موبائل اور موٹر سائیکلیں گن پوائنٹ پر چھینی جارہی ہیں۔ غریبوں کا اسپتالوں میں علاج کیسے ہوتا ہے؟ تعلیم کا معیار کیا ہے؟ عوام کن مشکلات میں زندگی بسر کررہے ہیں؟ ان کے بچے کس طرح گدلا اور زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں؟ گائوں کے وڈیرے کس طرح غریبوں کے لخت جگروں کی عزت تار تار کرتے ہیں؟ بازار اور مارکیٹ میں ملاوٹ کس طرح ہورہی ہے؟ تھانوں میں غریبوں کو کس طرح ’’انصاف‘‘ ملتا ہے؟ قانون کے محافظ کس طرح عوام کو لوٹتے ہیں؟ رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر کس طرح ’’محرم‘‘ ’’مجرم‘‘ میں بدلتے ہیں۔ اے کاش! ہمارے حکمراں بھی کبھی بھیس بدل کر حقیقی اور اصل طاقت یعنی عوام کی مشکلات اور مسائل معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت عمرو بن عاصؓ وہ صحابی ہیں جنہوں نے اہل روم کے خلاف بہت زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ایک دفعہ کسی صحابی نے عمرو بن عاصؓ سے کہا’’میں نے نبی ﷺسے سنا ہے کہ رومی (اہلِ یورپ) قیامت تک رہیں گے‘‘۔ اس پر عمرو بن عاصؓ نے کہا: ’’اگر ایسا ہے تو پھر اس کے چند اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہ باقی رہیں گے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے حکمراں عوام اور غریبوں کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ آپ خود سوچیں! جہاں غربت آدابِ تہذیب مٹارہی ہو اور مہنگائی کے چھکوں پر چھکے لگ رہے ہوں وہاں امن وخوشی کے پھول کیسے کھل سکتے ہیں؟

تازہ ترین