سندھ کا خطہ جو تہذیب و تمدن کے لحاظ سےہزاروں سال قدیم ہے۔ یہاں ابتدا سے ہی علم و ادب ، شعر و شاعری کادور دورہ رہا ہے، اس اعتبار سے اسے امن و آشتی کی سرزمین بھی کہا جاتاہے۔ آزادی کی جنگوں اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بھی وادی مہران نے لازوال کردار ادا کیا ہے ۔ اس کے حکم رانوں نے خطے میں فن تعمیر کو فروغ دیا اور اس سرزمین پر انتہائی پرشکوہ عمارتیں، عالی شان محلات، قلعے جن میں حیدرآباد کا کچا اورپکا قلعہ بھی شامل ہیں ، دیوار چین کی مماثل، دیوار سندھ ، جین مند اور مساجد تعمیر کی گئیں جب کہ یہاں وسیع و عریض قبو اور گورستان بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ قدیم دور میں تو چھوٹے چھوٹے گاؤں اور دیہی قصبات سے بڑے بڑے علماء و فضلا وادی سندھ کے افق پر ابھر کر سامنے آئے لیکن انگریزوں کے سندھ پر قبضے کے بعد اور وڈیرہ شاہی ، جاگیردارانہ نظام اورقبائلی سرداروں کی حاکمیت کی وجہ سے دیہی علاقوں سے تعلیم یافتہ معاشرے کا تصور ختم ہوتا گیا اور وہاں جاہلانہ رسم و رواج کو فروغ حاصل ہوا۔ بدقسمتی سے سندھ میں علم و ادب کا فروغ صرف شہروں کی سطح تک ہی ہوسکا جب کہ دیہی علاقوں، گاؤں و قصبات میں بدستورجہالت، فرسودہ روایات اور قبائلی رسومات کا دور دورہ ہے۔ دیہی علاقوں میں وڈیروں اور سرداروں نے اپنی حاکمیت قائم رکھنے کی خاطرتعلیم حاصل کرنا غریب و محکوم خاندانوں کے لیے شجر ممنوعہ بنادیا،اپنے علاقوں مں اسکول و مدارس قائم نہیں ہو نے دیئے اگرچہ حکومت کی جانب سے اسکول قائم بھی کئے گئے تو وہ طلبا واساتذہ سے محروم ہیں جب کہ ان کے احاطوں میں وڈیروں اور بااثر شخصیات کےمویشی باندھے جاتے ہیں۔ جہالت کا شکار،اکثر لوگ انسانیت کی سطح سے انتہائی نیچے گرجاتے ہیں جس کی وجہ سے قتل و غارت گری اور بدامنی ان علاقوں کا مقدر بن چکی ہے۔ معمولی سی بات پر کسی انسان کا قتل یا خونی تصادم کے واقعات ان علاقوں میں معمول کی بات ہیں۔
جہالت اور عدم برداشت کی وجہ سے قتل و غارت گری کا ایک ہولناک واقعہ دو ماہ قبل ،ضلع جیکب آباد کے تعلقہ گڑھی خیرو کے تھانہ تاجوڈیرو کی حدود میں پیش آیا، جس میںتقریباً دو درجن سے زائد افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق کرکٹ میچ کے دوران بعض نوجوانوں کے آپس کے جھگڑے نے بڑھ کر خونی تصادم کی شکل اختیار کرلی ، جس کی آگ اب تک سرد نہیں ہوسکی ہے اور دو ماہ کے دوران 7افرادموت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جب کہ20 سے زائد زخمی بھی ہیں۔جنگ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق دو ماہ قبل تاجو ڈیرو کے علاقے میں اوڈھو اور جکھرانی قبائل کے نوجوانوں کے درمیان دو مقامی ٹیموں کی سطح پر کھیلے جانے والے کرکٹ میچ کے دوران معمولی بات پرتلخ کلامی ہوگئی، جس کے بعد میچ قبل از وقت ختم کردیا گیا اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑی اپنے گھرچلےگئے۔ یوں لگ رہا تھا کہ دونوں ٹیموں کے درمیان ہونے والا مذکورہ تنازعہ، میچ ختم ہونے کے بعدکھلاڑیوں کے ذہنوں سے محو ہوگیا ہے لیکن ایسا نہیں تھا، ادڈھو برادری کے نوجوان گھر واپس آکر مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں سے بدلہ لینے کی تیاری کرنے لگے۔ اسی روز شام کو اوڈھو برادری سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے گھات لگا کر جکھرانی قبیلے کے ایک نوجوان کو آتشیں اسلحے سے فائرنگ کرکے قتل کر دیا ، جس پر جکھرانی قبیلے کے افراد میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور اس کے اگلے روزہی انہوں نے اوڈھو قبیلے کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ حملےکے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق ہوگیا جب کہ گولیاں لگنے سے متعد د افراد زخمی ہوگئے۔
اس کے بعد انتقام در انتقام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کیوں کہ دونوں متحارب قبائل کے گوٹھ آمنے سامنے واقع ہیں اس لیے ایک دوسرے پر آتشیں ہتھیاروں سے گولیاں برسانے کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ 12 جون کی صبح جکھرانی قبیلے کے تقریباً100مسلح افرادنے مبینہ طور پرگوٹھ شیرخان اوڈھو پر اچانک حملہ کردیاجس سے اوڈھوقبیلے کےافراد کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ اندھا دھند فائرنگ سےگوٹھ شیرخان اودھو کے ،حاجن اوڈھو، صوبدار اوڈھو اور نادر اوڈھو سمیت تین افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئےجب کہ ایک کم سن بچی ثناء،عامر، آزاد، مزمل، لعل بخش اور گل محمد اوڈھو سمیت 9 افراد زخمی ہوگئے۔جن میں سے متعدد زخمیوں کو تشویش ناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔متحارب گروپوں میں کئی گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے پورا علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض علاقہ مکینوں کی جانب سے مسلح افراد کی نقل و حمل کی پیشگی اطلاع دینے کے باوجود چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع تھانہ تاجو ڈیرو، پولیس کی جانب سے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا جب کہ ضلعی پولیس بھی محض تماشائی کا کردار ادا کرتی نظر آئی۔علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس ، گاؤں پر حملے کی پیشگی اطلاع پر فوری طور سے کارروائی کرلیتی تو اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوتا، لیکن پولیس نے میچ کےبعد شام کو ہونے والی قتل و غارت گری اور اس کے بعد اوڈھو قبیلے کے ردعمل کو معمولی واقعہ سمجھ کر مزیدخوں ریزی روکنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی۔
اس وقت دونوں گوٹھوں کے باشندے اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئےہیں۔پورے علاقے میں بچوں کی تعلیم سمیت معاشی اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔ علاقہ معززین،اراکین اسمبلی، سول سوسائٹی ، سیاسی و سماجی حلقوں اور پولیس حکام کی جانب سے علاقے کو مزید خوں ریزی سے بچانے کے لیے دونوں متحارب گروپوں کے درمیان مصالحت کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی گوٹھوں کے قریب چوکیاں قائم کرکے پولیس کی نفری کو تعینات کیا گیا ہے۔ بعض سماجی رہنماؤں کے مطابق ، پولیس نے گروہی تنازعات کی آڑ میںبے گناہ افراد کی گرفتاریوں اوران سے مبینہ طور پر رشوت کے عیوض رہائی کوکمائی کا ذریعہ بنالیا ہے جب کہ ان اقدامات سے اصل محفوظ ہیں۔
اوڈھو قبیلے کے افرادنےذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جکھرانی قبیلے کو مبینہ طور سے صوبائی حکومت کی بااثر شخصیات کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس بھی ان کے خلاف کارر وائی سے گریزاں نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دو ماہ کے قلیل عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کی ہلاکت، حکومتی رٹ کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ گڑھی خیرو کے سیاسی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ ضلع جیکب آبادمیں قبائلی تنازعات کی بیخ کنی کے لیے منتخب نمائندے اور پولیس حکام ثالثی کا کردار ادا کریں اور متحارب گروپوں کو ایک میز پر بٹھا کر ان کےآپس کے اختلافات دورکرکے ضلع میں امن و آشتی کی فضا بہتر بنانے کی کوششیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں خوں ریز ی کی ایک اہم وجہ آتشیں اسلحے کی فراوانی ہے۔ بلوچستان اور دیگر صوبوں سے اسلحے کی غیر قانونی ترسیل روکنے کے لئے سخت اقدامات کیے جائیں اور ضلع کو اسلحہ فری زون بنایا جائے۔