• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیس جون کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق صدر آصف علی زرداری کو ان کے جسمانی ریمانڈ میں پہلی بار توسیع کے لئے جج ارشد ملک کے سامنے پیش کیا گیا۔ نیب کے تفتیشی افسر نے مزید چودہ دن کے ریمانڈ کی توسیع مانگی تو آصف علی زرداری اٹھ کر روسٹرم پرآگئے بولے، جناب چودہ دن کا کیوں اکٹھا نوے دن کا ریمانڈ دے دیں۔ سب مسکرانے لگے البتہ نیب اہلکار ضرور حیران ہوئے۔ جج نے عدالتی کارروائی مکمل کی اور کیس اگلی تاریخ تک ملتوی ہوگیا۔

جمعرات 27جون کی بات ہے۔ احتساب عدالت اسلام آباد میں جج ارشد ملک جعلی اکائونٹس کیس کی سماعت کررہے تھے۔ ائیر کنڈیشنڈ کمرہ عدالت کے اندر اسی کیس کے ملزم سابق صدر آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس کیس میں گرفتار کیے گئے ایک اور نوجوان ملزم عبدالغنی مجید کو اپنے ساتھ نشست پر بٹھا رکھا تھا۔

لطیف کھوسہ اور فاروق ایچ نائیک نے معزز جج کے سامنے نیب کی طرف سے ملزم عبدالغنی مجید کے ساتھ روا رکھے گئے مبینہ نا مناسب رویے پر بات شروع کی تو زرداری اپنی نشست سے اٹھ کر وکلا کے ہجوم کو پاٹتے جج کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ ادب اور اعتماد کے لہجے میں بولے نیب نے جو کیس بنانا ہے بنائے لیکن ان کے ساتھ رویہ تو مناسب رکھے۔ یہ ڈکیت نہیں پڑھے لکھے لوگ ہیں ان کے ساتھ مناسب رویہ رکھنا چاہئے۔ جج ارشد ملک مسکرائے اور بولے یہ سماج دشمن عناصر ہیں۔

آصف علی زرداری نے ترکی بہ ترکی جواب دیا جناب یہ تو نوکریاں ڈھونڈتے ہیں۔ سماج دشمن نہیں۔ اس پر جج نے وکلا کی طرف رخ کرتے ہوِئے ایک واقعہ سنانا شروع کردیا۔ ظاہر ہے وہ یہ واقعہ آصف علی زرداری کو سنارہے تھے۔

جج ارشد ملک بولے میرے پاس تین ملزمان آئے۔ انہیں میں نے سماج دشمن عناصر کہا تو وہ بولے جناب ہم سماج دشمن نہیں اناج دشمن عناصر ضرور ہیں۔ جج ارشد ملک کی اس بات پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونجنے لگے۔ تاہم عدالتی کارروائی جاری رہی۔

ایک موقع پر وکلا نے جعلی اکائونٹس کیس کے ایک بیمار ملزم کی گرفتاری کی بات کی اور کہا کہ اس کے خاندان والوں کو گرفتاری کے بعد سے اس سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ بہت پریشانی ہے۔ اس پر جج ارشد ملک نے وکلا کو بتایا کہ اگر ایک شخص خود کو اندر سے کنڈی لگا کر کمرے میں بند کرلے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ پریشان بھی نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی دوسرا اسے اندر بھیج دے اور باہر سے کنڈی لگا دے تو ظاہر ہے آدمی پریشان ہوتا ہے۔ معزز جج نے یہ بات کی تو وکلا کے ساتھ کھڑے آصف زرداری اپنے سفید دانتوں سے مسکراتے ایک بار پھر بولے، جناب وہ ڈرنے والے کوئی اور ہیں ہم ڈرنے والے نہیں۔ میں تیرہ سال قیدِ تنہائی کاٹ چکا ہوں۔

ایسے ہی ماحول میں کیس کی سماعت ختم ہوئی جج نے 8جولائی کی تاریخ دی اور وہ اپنے چیمبر میں چلے گئے۔ آصف زرداری مگر اپنی نشست پر براجمان ہی رہے۔ جیسے انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ ان کے اردگرد پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے ایک دائرہ سا بنا لیا۔ ذرداری کے پیچھے سینیٹر رحمان ملک بھی کھڑے تھے۔ لطیف کھوسہ آصف زرداری کو عدالت میں ان کے رویے پر داد دے رہے تھے اور ہلکی پھلکی گپ شپ جاری تھی۔

اچانک نیب کا ایک اہلکار آیا اور اس نے سابق صدر کی نشست کے پیچھے کھڑے ہوکر کان میں سرگوشی کے انداز میں کہا ’’سر کافی وقت ہوگیا ہے چلیں واپس جانا ہے‘‘۔ میں نے بھی آگے بڑھ کرنیب اہلکار کی درخواست سن لی۔

زرداری پر البتہ اس سرگوشی سے فرق نہ پڑا۔ مسکرائے اور جواب میں سرگوشی کے بجائے نارمل اندازمیں بولے، بھئی ادھر جانے کی بھی جلدی کیا ہے؟ وہاں جا کر بھی کیا کرنا ہے۔ ابھی یہیں بیٹھتے ہیں یہاں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔ سب مسکرانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد آصف زرداری کمرہ عدالت سے مسکراتے ہوئے نکلنے لگے۔

آصف علی زرداری کو عدالت آتے، جیل جاتے اور مسکرا مسکرا کر لوگوں سے ملتے دیکھ کر آپ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ملزم وہ نہیں پورا سسٹم ہے۔ وہی سسٹم جو کبھی زرداری کو جیل پھینکتا ہے تو ضرورت پڑنے پر جیل سے سیدھا ایوانِ اقتدار۔ ماضی میں یہ سب ہو چکا ہے۔

زرداری عدالت سے نکل رہے تھے تو میں نے پوچھا، لگتا ہے آپ نیب اہلکاروں کو تربیت دے رہے ہیں؟ بولے میں نے انہیں تربیت کیا دینی یہ سسٹم ہی خراب ہے۔ میں نے عرض کی جناب یہ سسٹم ٹھیک کون کرے گا؟ آصف زرداری اعتماد سے بولے، ہم واپس آکر ٹھیک کریں گے۔ ان کی باتوں سے لگا کہ وہ نیب کی حراست میں بھی سیاسی جمع تفریق جاری رکھے ہوئے ہیں۔

6جون کو اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس تھی اور بلاول بھٹو پارلیمنٹ ہائوس سے سیدھا اسلام آباد ہائیکورٹ اپنے والد آصف علی زرداری سے ملنے پہنچے تھے۔ یہاں دونوں باپ بیٹے نے کچھ سرگوشیاں کی تھیں۔ بعدازاں اسی شام بلاول آل پارٹیز کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لئے مشترکہ اعلامیے کی توثیق کررہے تھے۔ یہ وہی چیئرمین سینیٹ ہیں جنہیں سابق صدر آصف علی زرداری نے کسی کے کہنے پر چیئرمین بنوایا تھا کہ اس وقت مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ میں کمزور کرنا مقصود تھا۔ اب البتہ حالات بدل چکے ہیں۔ زرداری شاید اپنے اس رویے پر بھی پشیمان ہیں۔

آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات اس روز سے ہیں جب سے انہوں نے بے نظیر بھٹو سے شادی کی۔ ان کا اپنا رویہ بھی کھلنڈرا ہے۔ زرداری کی سیاست کا فین تھا نہ ہوں لیکن زرداری جسطرح عدالتوں کا سامنا کرتے، جیلیں کاٹتے اور پریشانی کے لمحات میں دانت نکالتے مسکراتے ہیں ان سب باتوں کا ضرور فین ہوں۔

عدالتوں کے انہی احاطوں میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف، سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو بھی دیکھ چکا ہوں۔ کوئی ایک بھی آصف زرداری کی طرح عدالت آیا نہ جیل گیا۔ میرے خیال میں پاکستانی سیاست میں بہتر سیاسی موقف ہی نہیں جوانمردی سے جیل کاٹنا بھی دشمنوں کے چھکے چھڑا دیتا ہے۔ اگر آپ صاف شفاف ہوں کرپشن کا کوئی داغ بھی نہ ہو تو سونے پے سہاگہ۔

آپ جوانمردی سے گرفتار ہوں، جیل جائیں تو بھی مثال بن جاتے ہیں مگر چور دل کے ساتھ اقتدار میں بیٹھ کر چھپکلی سے ڈر جائیں تو بھی ایک مثال۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین