• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگلینڈ میں آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کا میلہ سجا ہوا ہے۔ شائقین کرکٹ عالمی ایونٹ سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ فٹبال کے بعد کرکٹ دوسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل ہے۔

انگلینڈ میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کو ناقص کارکردگی کے باعث شائقین کرکٹ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تنقید تو بنتی بھی ہے ،اگر کارکردگی نہیں دکھائیں گے تو تنقید ہی ہو گی۔

قومی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سب سے زیادہ تنقید کپتان سرفراز احمد، شعیب ملک، محمد حفیظ، امام الحق اور آصف علی پر کی گئی، اس کے علاوہ دیگر کھلاڑیوں پر بھی جملے کسے گئے۔

ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو ابتدائی میچز میں قومی ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی، پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز نے قومی ٹیم کو 105 کے مجموعے پر پویلین کی راہ دکھائی اور ہدف کا تعاقب نیز 13 اعشاریہ 4 اوورزمیں پورا کرلیا۔

دوسرے میچ میں پاکستان نے کم بیک کیا اور ورلڈ کپ کی فیورٹ اور میزبان ٹیم انگلینڈ کو ایک اچھے مقابلے کے بعد 14 رنز سے ہرادیا جبکہ قومی ٹیم کا تیسرا میچ بارش کی نذر ہوا ۔

چوتھے میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 41 رنز سے شکست دی ۔ پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد قومی کھلاڑی مزید تنقید کی زد میں آگئے۔

ہار اور جیت کھیل کا حصہ ہے مگر کرکٹ شائقین نے ہار کو انا کا مسئلہ سمجھ لیا۔قومی ٹیم کی بھارت سے شکست کے بعد شائقین نے خاص طور پر پاکستانی فینز نے تنقید کی حد ہی پار کردی۔

آسٹریلیا سے شکست کے بعد ہمارے سابق کرکٹرز نے بھی قومی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اور خوب تنقید کی۔شائقین کرکٹ کی جانب سے سرفراز احمد کے جمائی لینے پر انہیں بہت زیادہ برا بھلا کہا گیا۔

سوشل میڈیا سمیت ٹی وی چینلز پر بھی سرفراز کو ان کے اس عمل پربہت برا بھلا کہا گیا۔

سابق کرکٹرز کی جانب سے کی جانے والی تنقید پر سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جس کا جو دل چاہتا ہے لکھ دیتا ہے اور کہا کہ سابق کرکٹرز خدا بن کر ٹی وی پر بیٹھے ہیں۔ سابق کھلاڑی ٹیم پر غیر ضروری تنقید کرکے شائقین کو مشتعل کرنے کے ذمےدار ہیں۔

سرفراز احمد نے مزید کہا کہ جمائی انسان ہی لیتے ہیں ،میں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا۔

اسی دوران سرفراز احمد کے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ بھی رونما ہوا، سرفراز احمد اپنے بیٹے کے ساتھ شاپنگ مال میں موجود تھے کہ اچانک کسی نے انہیں نامناسب الفاظ سے مخاطب کیا اور انہیں ہراساں کیا اور ویڈیو بنا کر مزید تذلیل کا نشانہ بنایا۔

اسی دوران ایک شاپنگ سینٹر میں دو پاکستانی کرکٹرز اور ایک شخص کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس کی زبان انتہائی نامناسب تھی۔

شائقین کی کھیل پر تنقید کرنا بجا ہی سہی مگر ان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنانا کسی طور پر بھی درست عمل نہیں ہے۔

سرفراز احمد کہتے ہیں کہ ہمارے پرستار ہمیں بہت پیار کرتے ہیں لیکن لندن میں ایک تماشائی نے جو حرکت کی اس نے مجھے سخت دکھ دیا اور ویڈیو منظر عام پر آئی تو میری بیوی ہوٹل کے کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی۔

شائقین کرکٹ اور خاص کر کے سابق کرکٹرز تنقید ضرور کریں مگر اس بات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں کہ تنقید میں تضحیک کا عنصر شامل نہ ہو۔

سوشل میڈیا پر تو یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ وہاں جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کہہ دیتا ہے مگر کم ازکم ہمارے ٹی وی چینلز کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ غیر ضروری تنقید سے ہر ممکن اجتناب برتیں کیونکہ یہ دل آزاری کا سبب بنتی ہے۔

تنقید ایک بہت اچھی چیز ہے، اگر کوئی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو اس پر تنقید اوراس کی اصلاح تو بنتی ہے مگر تنقید ذاتیات پر نہیں محض کارکردگی پر ہونی چاہیے۔

تنقید لفظ کا معنیٰ ہے پرکھنا، جانچنا اور اچھے برے میں تمیز کرنا۔تنقید معاشرے کی بہتری کا سبب ہوتی ہے مگر افسوس ہم تنقید کے بجائے تضحیک کررہے ہیں۔ تنقید کرتے وقت مثبت اور منفی پہلوؤں کو بیان کیا جاتا ہے لیکن ہم (شائقین) صرف خامیاں ہی بیان کرتے ہیں۔

کبھی کسی کو پرچی، کسی کو غدار اور کبھی نامناسب الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں، شائقین کرکٹ کچھ تو خیال کیجئے!!

تازہ ترین