اسلام آباد (طارق بٹ) جیل میں قید سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے اپنی سزا یابی کے خلاف اپیل کو طویل عرصے کیلئے ملتوی کئے جانے کے فیصلے اور سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اپنی ضمانتوں کی تینوں درخواستیں واپس لینے کا اقدام بہت سوں کیلئے حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ یہ دونوں ڈویلپمنٹس اسلام آباد ہائی کورٹ میں سامنے آئیں کیونکہ تین مقدمات اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ نواز شریف کی اپیل اب ستمبر کے وسط کے بعد سنی جائے گی جب اسلام آباد ہائی کورٹ کی سالانہ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوں گی جبکہ زرداری کی پارک لین، توشہ خانہ لگژری گاڑیوں اور بلٹ پروف گاڑیوں کے مقدمات سے متعلق ضمانت کی درخواستیں اس وقت سنی جائیں گی جب انہیں نئے سرے سے دائر کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے دی نیوز کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کی اپیل ستمبر 15 کے بعد سنی جائے گی جب گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوں گی۔ جس طرح نواز شریف کے مقدمات کی پیروی کی گئی ہے اور عدالتوں میں دلائل دئیے گئے ہیں اس پر انہوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ امید افزا نتائج حاصل کرنے کے مقصد سے بہت زیادہ جلد بازی دکھائی گئی ہے۔ کامران مرتضیٰ کا خیال ہے کہ جلد بازی اور بے احتیاطی نے سابق وزیر اعظم کے دفاع کو نقصان پہنچایا اور ان کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ نے طبی بنیادوں پر اس طرح کی ضمانت کی درخواست کو چند ہفتوں قبل ہی مسترد کیا تھا تو اسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر نہیں کیا جانا چاہئے تھا کیونکہ انہی بنیادوں پر اسے منظور کرنا غیر متوقع ہے۔ سابق صدر زرداری کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں واپس لئے جانے کے حوالے سے تجربہ کار وکیل کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ سابق صدر اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ فی الحال اس طرح کے ریلیف کیلئے کوئی اچھا کیس نہیں بنایا گیا۔ دو اعلیٰ حزب اختلاف کے سیاستدانوں کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے اپنے کلائنٹس کے فیصلوں کے حوالے سے دی نیوز سے آن دی ریکارڈ گفتگو نہیں کی تاہم ان کی قانونی ٹیموں کے قریبی ذرائع نے ان اقدامات کے پیچھے مختلف وجوہات بتائیں۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات نے نواز شریف کی قانونی ٹیم کی جانب سے اختیار کئے جانے والی فاسٹ ٹریک اسٹریٹجی کو ایک طرف چھوڑدینے پر مجبور کردیا کیونکہ اس سے مناسب نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اب سے سست (سلو) ٹریک کی پیروی کی جائے گی اور ان کا مزید کہنا تھا کہ مجموعی ماحول اب بھی سازگار نہیں جو کسی فوری ریلیف کے امکانات پیدا کر رہا ہو۔ شریف خاندان کے وکلاء میں سے ایک اعظم نذیر تارڑ نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ضمانت مسترد ہونے والی ہے، انہوں نے حمزہ شہباز کے کیس میں لاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے طبی بنیادوں پر سابق وزیر اعظم کی ضمانت کے مسترد ہونے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں جلد دائر کردی جائے گی۔ زرداری کے ایک وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے کلائنٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب زرداری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے گا تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرادی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ضمانت منظور ہوگئی تھی لیکن نیب نے زرداری کو رہا نہیں کیا اور ایک اور مقدمے میں گرفتار کرلیا۔