• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک جس سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے، تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے محابا اضافے، روپے کی قدر میں مسلسل کمی، صنعتوں اور کارخانوں کیلئے سازگار حالات کے فقدان اور بے روزگاری میں ہولناک اضافے سے کروڑوں پاکستانی جس سنگین صورتحال کا شکار ہیں، اس کا تقاضا تھا کہ ملک کی پوری سیاسی قیادت مل بیٹھ کر عوام کو حتی الامکان چین کا سانس لینے کے مواقع مہیا کرنے پر اسی طرح غور و خوض کرتی جس طرح کسی بیرونی جارحیت اور جنگ کی صورت میں تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر قومیں متحد ہوجاتی ہیں اور جس کی متعدد قابلِ فخر مثالیں ہماری اپنی تاریخ میں بھی موجود ہیں۔ اس کے بعد ان اسباب کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جاتا جن کے باعث ڈیڑھ دو سال پہلے تک عالمی اداروں کی نگاہ میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی عالمی معیشتوں میں شامل ہمارا ملک آج اقتصادی میدان میں خطے کا سب سے پسماندہ ملک بن گیا ہے، پھر ان کے ازالے کیلئے متفقہ لائحہ عمل تشکیل دے کر قومی اتحاد و یکجہتی کے ماحول میں اس لائحہ عمل کو بروئے کار لایا جاتا۔ قومی یکجہتی کی فضا وقت کی وہ ناگزیر ضرورت ہے جس کا بہت واضح اظہار آرمی چیف بھی ایک روز پہلے معیشت کے موضوع پر ہونے والے ایک سمینار میں کر چکے ہیں لیکن بائیس کروڑ پاکستانیوں کے سامنے حالات کا عملی نقشہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں محض الزام تراشی کی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف وفاقی وزیر توانائی گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافوں کا اعلان اس اقدام کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو قرار دیتے ہوئے کررہے ہیں اور دوسری طرف وزیراعظم اور حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامی بیانات بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے ’’اپوزیشن لیڈر کس منہ سے ڈالرکی بات کرتے ہیں؟ ڈالرمہنگا کرنے کی ذمہ دار منی لانڈرنگ میں ملوث سابقہ حکمراں اشرافیہ ہے، یہ اسپیکر اور اسمبلی کا کمال ہے کہ ہم نے چوری کرنیوالوں کو پارلیمنٹ میں تقاریر کی اجازت دیدی، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا‘‘جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مسائل حل کرنا اس حکومت کے بس میں نہیں۔ اپوزیشن کا فیصلہ تھا لاڈلے کو ایکسپوز ہونے دیں، سب نے دیکھ لیا معیشت کی تباہی ہوئی، معیشت کو لگی بیماری کا علاج صرف نئے انتخابات ہیں‘‘۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے بقول ’’بجٹ پاس نہیں بلڈوز ہوا، ملکی معیشت کے معاملات پر سلیکٹڈ وزیراعظم سے نہیں ریاست پاکستان سے بات کریں گے، لندن میں بہت بڑی انویسٹی گیشن چل رہی ہے جس میں عمران خان کا بہت بڑا اسکینڈل آرہا ہے‘‘۔ حکومت اور اپوزیشن کی یہ الزامی سیاست کسی بھی طور عوام کی پریشانیوں کا حل نہیں۔ ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا عوام کے تمام منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے اور اس کی ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب ان کا یہ استحقاق تسلیم کیا جائے، محض الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار دے ڈالنا دنیا کے کسی قانون کی رو سے درست نہیں۔ منتخب ایوان اور اس کے ارکان معیشت سمیت تمام امورِ مملکت کی بہتری میں اسی وقت اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جب الزام تراشی کی سیاست سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے ان معاملات کا فیصلہ متعلقہ احتسابی اداروں پر چھوڑ دیا جائے اور احتسابی عمل میں غیر جانبداری کا پورا اہتمام کیا جائے۔ الزامات محض اپوزیشن پر نہیں، وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں اور وزراء پر بھی ہیں۔ احتسابی اداروں میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا نظر آئے تب ہی یہ عمل معتبر قرار پائے گا۔ اس کے ساتھ منتخب ایوان میں الزام تراشی کی ہڑبونگ سے بالاتر رہتے ہوئے کاروبارِ مملکت چلانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے اپنا کردار سنجیدگی اور دردمندی کے ساتھ ادا کریں، ملک کو درپیش موجودہ سنگین چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

تازہ ترین