70ء کی دھائی میں پاکستانی سنیما اسکرین پر کئی نئی اداکارائیں متعارف ہوئیں، جن کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان تمام نئی اداکارائوں میں ادکارہ ممتاز اور بابرہ شریف کو باکس آفس پر شان دار کام یابی ملی، جس نے ان دونوں اداکارائوں کو سپر اسٹار کا درجہ دلایا۔ ستر کی دھائی بہت ہی گولڈن پیریڈ رکھتی ہے۔ ممتاز اور بابرہ نے گویا کہ ایک ساتھ زیادہ فلموں میں تو کام نہیں کیا ، لیکن ان کی غیر فلمی زندگی، ان کی دوستی اور زندہ دلی سے بھرپور ہے۔ ’’منزل‘‘ فلم کی جس زمانے میں شوٹنگ ہورہی تھی، تو ان دونوں اداکارائوں نے دوپٹہ بدل بہنوں کا رشتہ قائم کرلیا تھا۔ ’’منزل‘‘ جس کے ہدایت کار ایس سلمان تھے، نے اس فلم میں ان دونوں اداکارائوں پر ایک سپرہٹ گیت بھی فلمایا تھا۔ ممتاز اور بابرہ دونوں نے اردو باکس آفس پر راج کیا ہے۔ اردو سنیما پر اپنی اداکاری کے انمنٹ نقوش چھوڑنے والی یہ دونوں اداکارائیں اب ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ دونوں جب بھی کسی فلم کے سیٹ پر اکٹھی ہوتیں، تو ان کی محبت کو دیکھ کر ہر کوئی انہیں سگی بہنیں سمجھتا تھا۔ کسی بھی صنعت میں کام کرنے والوں کا یہی وہ جذبہ ہوتا ہے، جس سے وہ صنعت ترقی کرتی ہے۔ فلمی صنعت میں جب تک فن کاروں میں یہ جذبہ اور محبت موجود تھی، فلمی صنعت ترقی کرتی رہی، جیسے ہی اس کا فقدان ہوا، یہ اپنے زوال کی طرف سفر کرنے لگی۔ اس وقت نئے فن کاروں اور آرٹسٹوں کو آپس میں اسی جذبے کو زندہ کرنا ہے، جو کبھی ممتاز اور بابرہ کے نام سے دم بھرتا تھا۔1975ءمیں شباب کیرانوی کی رومانٹک شاہ کار ’’میرا نام ہے محبت‘‘ وہ پہلی فلم تھی، جس میں بابرہ شریف کو سولو ہیروئن کے طور پر ایک نو آموز فن کار غلام محی الدین کے ساتھ پیش کیا گیا۔ یہی وہ فلم تھی، جس میں ان کی غیرمعمولی پرفارمنس دیکھ کر فلم میکرز نے انہیں ایک بڑی اداکارہ تسلیم کرتے ہوئے بطور ہیروئن بھرپور نوعیت کے چیلنجنگ کرداروں میں کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان دونوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بہ طور ثانوی کرداروں سے کیا۔ 1974ء میں فلم سازو اداکارہ شمیم آراء نے پہلی بار ان دونوں کو اپنی فلم ’’بھول‘‘ میں مضبوط کردار دیے، جب کہ ’’بھول‘‘ میں اپنے زمانے کی سپراسٹار شبنم ہیروئن تھیں۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی، تو ممتاز اور بابرہ شریف کے کردار فلم بینوں نے بے حد پسند کیے۔ اس فلم کے ہدایت کار ایس سلمان تھے۔ ان ہی کی ڈائریکٹ کی ہوئی ایک اور فلم ’’انتظار‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی، جس میں شبنم، ندیم کے علاوہ ممتاز اور بابرہ شریف نے فلم کے ہر منظر میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔ شمیم آرا کی فلموں سے توجہ حاصل کرنے والی یہ دونوں اداکارائیں اپنی چند فلموں سے فلم شائقین کے دل جیتنے میں کام یاب ہوگئیں۔ شمیم آرا نے ان دونوں پر خاص توجہ دی۔ اداکاری کے اسرار و رموز سے انہیں مکمل آگاہی دی۔ ان دونوں نے بھی ہمیشہ انہیں استاد اور باجی کا درجہ دیا۔ 1976ء میں پرویز ملک کی سپرہٹ بلاک بسٹر مووی ’’تلاش‘‘ میں ایک بار پھر شبنم، ممتاز اور بابرہ شریف نے اہم کردار ادا کیے۔ یہ فلم اپنے خوب صورت اسکرین پلے، جان دار کہانی، سپرہٹ، میوزک کی وجہ سے طویل عرصے تک عوام کی نگاہوں کا مرکز بنی رہی۔ یہ وہ دور تھا، جب پاکستانی فلمیں سنیما گھروں میں سال بھر لگی رہتی تھیں۔ لوگ ان فلموں کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں طویل قطاروں میں ٹکٹ کے حصول کے لیے کھڑے رہتے تھے۔ پاکستانی اداکاروں کا صحیح معنوں میں اسٹار ڈم اور عروج تھا۔
بابرہ اور ممتاز نے فلم ’’تلاش‘‘ میں بہنوں کے کردار کیے۔ اداکاری میں تو ان کی کیمسٹری ملتی ہی تھی، سیٹ پر بہت ہی اچھے طریقے سے یہ دونوں آپس میں رہتی تھیں۔ کبھی ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ سنی اور نہ ہی پڑھی کہ یہ دونوں آپس میں حسد کرتی ہیں یا فلم کے سیٹ پر لڑ پڑیں، بلکہ سگی بہنوں کی طرح رہتی تھیں۔ ایک ساتھ فلموں میں کام کرنے سے یہ دونوں آپس میں بے حد قریب تھیں۔ یہ پاکستانی فلموں کا وہ دور تھا، جب تمام فن کار ایک فیملی کی طرح سیٹ پر رہتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہوتے تھے، ہر کوئی دوسرے کا احترام کرتا تھا۔ پھر 90ء کی دھائی میں اس انڈسٹری پر وہ دور بھی آیا، جب ایک ساتھ فلموں میں کام کرنے والی اداکارائیں ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہوئیں، گانوں کی پکچرائزیشن پر آپس میں لڑ پڑیں اور میڈیا پر آکر ایک دوسرے کو خوب لعن طعن کرنے لگیں۔اب ممتاز کینیڈا میں، جب کہ بابرہ لاہورمیں رہتی ہیں۔ ان دونوں کے مابین آج بھی محبت کا رشتہ قائم ہے۔