میں نے معروف انگریزی روزنامے دی نیوزمیں اپنے گزشتہ ہفتہ وار کالم میں اپنے حالیہ دورہ یورپ کے تناظر میں یورپی اقدار پر روشنی ڈالی تھی، آج مختلف یورپی ممالک یورپی یونین کی چھتری تلے مشترکہ کرنسی یورواپناتے ہوئے متحد ہیں جبکہ یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ آج کے یورپی ممالک ماضی میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، یورپ کی دھرتی ایک طویل عرصے تک مذہب کے نام پر جنگ و جدل کا شکار رہی ہے،ماضی میں بے پناہ خون خرابہ ،دنگا فساداور مذہبی شدت پسندی کے باوجود یورپی ممالک آج کیسے متحد ہیں، اس سوال کا جواب جاننے کیلئے نہ صرف میں نے مختلف یورپی میزبانوں سے گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی۔ آج کے جدید یورپ کی بنیاد رکھنے میں ویسٹ فالن کا امن معاہدہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، اس معاہدے کے نتیجے میں یورپ میں جاری طویل جنگ کا خاتمہ ہوا اور تمام علاقائی طاقتوں نے ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام یقینی بنانے کا عزم کیا۔ سترہ ویں صدی تک یورپ کی تاریخ کا وہ سیاہ دور ہے جب یورپ کی آبادی دو مذہبی گروہوں میں منقسم تھی، کیتھولک گروہ کی قیادت مذہبی پیشوا پوپ کے پاس تھی تو دوسراگروہ پروٹسٹنٹ کرسچیئن پر مشتمل تھا، جغرافیائی طور پر یورپ کے مرکز میں مقدس رومی سلطنت ،جنوب میں فرانس اورا سپین کی کیتھولک حکومتیں جبکہ شمال میں سویڈن کی پروٹسٹنٹ حکومت کا راج تھا،مغرب میں ہالینڈ میں بسنے والے اسپین کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جنگآزادی میں مصروف تھے تو جنوب میںا سپین اور فرانس کے درمیان بھی تصادم جاری تھا، اس زمانے کے دستور کے مطابق بادشاہ کا مذہبی عقیدہ اختیار کرنا رعایا پر لازم تھا۔ شمالی یورپ اور جنوبی یورپ کے مابین مذہبی بنیادوں پر اس ہولناک جنگ کو 30 سالہ جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یورپی عوام کو یقین تھا کہ اس ختم نہ ہونے والی جنگ کے نتیجے میں بچ جانے والوں کا مقدر بھوک پیاس اور وبائی بیماریوں کے ہاتھوں اذیت ناک موت کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے ہر معاشرے میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اور خدا کبھی اپنے اچھے بندوں کو مایوس نہیں کیا کرتا، یہی وجہ ہے کہ یورپی جنگوں کی ہولناکی اور تباہ کاری دیکھنے کے بعد دونوں طرف سے انسانیت کا درد رکھنے والے اچھے شہری آگے بڑھے اور انہوں نے قیام امن کیلئے جدوجہد شروع کردی، آخرکار تمام یورپی لیڈر اس نکتہ پر متفق ہوگئے کہ ایک بڑی امن کانفرنس بلائی جائے جس میں یورپ کودرپیش تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے تمام طاقتوں کی نمائندگی ہو ،اس مقصد کے حصول کیلئے طویل مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے کانفرنس میں حصہ لینے والے تمام نمائندگان کو تحفظ اور آزادانہ سفر کی ضمانت دی جائے، مذہبی اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے بدمزگی سے بچنے کیلئے کیتھولک طاقتوں کے نمائندوں کوکیتھولک مذہب کے اکثریتی شہر میونسٹر جبکہ پروٹسٹنٹ طاقتوں کے نمائندوں کولگ بھگ 80 کلومیٹر دور شمال میں واقع مقام اوسنابروک میں جمع کیا گیا جہاں اکثریت پروٹسٹنٹ لوگوں کی تھی، یہ سارا علاقہ غیر عسکری قرار دیا گیا،پہلے مرحلے میں نمائندے آپس میںخودمذاکرات کرتے پھر اپنی حکومتوں کو منظوری کیلئے بھیجتے، اس زمانے میں تیز رفتار اور موثر ذرائع ابلاغ نہ ہونے کی بناء پرجواب موصول ہونے میں کم ازکم اٹھارہ دن لگ جاتےتھے۔ اس تھکا دینے والے طویل امن عمل کے باوجود تمام فریقین پُرعزم تھے کہ اس امن کانفرنس کو ہر صورت جاری رکھا جائے، یوںایک طرف جنگ اور دوسری طرف امن کی کوششیں ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔آخرکار امن کے داعیوں کی جدوجہد رنگ لائی اورنصف 17ویں صدی کے دوران یورپ کے سو سے زائد نمائندگان نے جرمنی کے شہر میونسٹر میں اس تاریخی امن معاہدےکو تشکیل دے دیاجسے ویسٹ فالن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں یورپ بھر میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیااور تمام یورپی ممالک نے برابری کی سطح پر ایک دوسرے کی علاقائی خومختاری کے احترام کا اعادہ کرتے ہوئے مذہبی شدت پسندی کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیا۔بعد ازاں، یورپ پر ایک ہزار سال تک راج کرنے والی مقدس رومی سلطنت کا خاتمہ فرانس کے شہنشاہ نپولین بونا پارٹ کے ہاتھوں انیسویں صدی میں ہوگیا۔یورپی عوام کو علم و تحقیق کی راہ پر لگانے کیلئے میونسٹر یونیورسٹی قائم کی گئی جسے اب ویسٹ فالن ولہیلم یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔ میں تاریخ کا مطالعہ کرنے کےبعد یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر یورپ آج ایک ہوسکتا ہے، ساؤتھ اور نارتھ کوریا قریب آسکتے ہیں اورقائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں وطن سے محروم لوگ اپنے لئے الگ ملک لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو آج کے ترقی یافتہ دور میںہمارے پیارے وطن پاکستان میںہم سب متحدکیوںنہیں ہورہے؟اس کی بڑی وجہ میرےخیال میںیہ ہے کہ ہم ماضی میں رہنا پسند کرتے ہیں ،تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔آخر کب تک ہم ماضی کے حوالے دے کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے رہیں گے؟میری تجویزہے کہ ملک و قوم کی بھلائی کی خاطر تمام محب وطن شہری آگے بڑھیں اور ایسا گرینڈ جرگہ منعقد کرنے کی راہ ہموار کریں جس میںتمام سیاسی، پارلیمانی ، مذہبی، سول سوسائٹی ، میڈیا ، عسکری اور ہر مکاتب فکر کی نمائندگی ہو، اس جرگے کے سامنے ایک ہی ٹاسک ہو کہ ہرقسم کے اختلاف سے بالاتر ہوکر باہمی مشاورت سے ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ایساموثرنظام ترتیب دیا جائے جس پر عوام کا اعتماد ہو، یہ جرگہ کرپشن کے ناسور کے خاتمے، قومی اداروں کے احترام، قانون کی حکمرانی، معاشی استحکام، انسانی حقوق کے تحفظ، میرٹ پر بھرتیاں وغیرہ جیسے قومی اہمیت کے معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ایسا گرینڈ جرگہ منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان بہت جلد ایشیائی ٹائیگر بننے کے قابل ہوسکے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)