• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ جملہ صادق آتا ہے کہ ’’ملک مشکل حالات سے دوچار ہے اور نازک موڑ پر کھڑا ہے‘‘۔ برسوں بلکہ دہائیوں کی باہمی رزم آرائی، کشت و خون اور تباہی و بربادی کے بعد دنیا اس مسلمہ حقیقت کو پا چکی ہے کہ کسی بھی ملک کی سالمیت، خود مختاری، دنیا میں مقام اور ملک و قوم کی خوشحالی و ترقی دراصل اس کے معاشی استحکام سے مشروط ہے۔ صرف سابق سوویت یونین کی مثال پر اکتفا کر لیں کہ اسے شکست کہیں باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہوئی، اس کی معاشی ابتری اس کے زوال اور تحلیل کا باعث بنی۔ جہاں تک پاکستان کی معاشی صورتحال کا تعلق ہے اس بارے میں حکومت کی تمام تر نیک نیتی اور اقدامات کے باوجود ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا سا معاملہ دکھائی دیتا ہے، باوجود اس کے کہ تمام ریاستی ادارے حکومت کے شانہ بشانہ ہیں۔ پاکستان نے معاشی استحکام کے لئے سعودی عرب، قطر، ایران، چین اور روس سمیت متعدد پڑوسی ممالک سے اقتصادی روابط بڑھائے اور چند دوست ممالک نے تو پاکستان کی مالی معاونت بھی کی تاہم حالات اتنے پیچیدہ تھے کہ اسے بادل نخواستہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہی پڑا۔ اس کے بعد جو ہوتا ہے، وہ بھی سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کوئی پیکیج لینے کا مطلب ہے اس کی شرائط ماننا، جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ لازم ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہونے والی مہنگائی نے اس پر ’’مرے پہ سو درے‘‘ کا کام کیا اور بجٹ کے بعد تو گویا ان کے لئے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو گیا۔ آئی ایم ایف سے رجوع کے بعد کی صورتحالی کوئی انہونی نہیں کہ جب جب ایسا کیا گیا تب تب حالات مشکل ہوئے تاہم اس وقت اسے زیادہ اس لئے محسوس کیا گیا کہ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں نڈھال تھے۔ یوں بھی گرانی کا شکار ہمیشہ محنت کش، کم تنخواہ دار اور سفید پوش طبقہ ہی ہوتا ہے اور پاکستان میں یہ اکثریتی طبقہ ہے۔ ظاہر ہے عوام، جو حالات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے، اس صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو ہی سمجھیں گے، لیکن عوام کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا اس کے سوا اور کوئی چارہ تھا؟ اگر نہیں تو پھر اس پر نکتہ آفرینیاں اور تنقید کیا ملک کو معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی انتشار میں مبتلا نہیں کر دے گی، جو حالات کو خرابی بسیار کی طرف لے جانے کا سبب ہی بنے گی اور اس سے کسی کا بھی بھلا نہ ہو گا۔ حکومت کے حالیہ اقدامات سے اگرچہ حالات کی کٹھنائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اشیائے خور و نوش بھی مہنگی ہوئی ہیں، کاروباری حلقے بھی متاثر ہوئے، فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور لاہور کے کار ڈیلرز ہڑتال کر رہے ہیں اور اس کے دیگر اثرات بھی عیاں ہیں لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود تھا، اگر تھا اور کسی نے اس کی نشاندہی نہیں کی تو کیا اس نے ملک و قوم کے ساتھ بھلائی کی؟ یاد رکھنا چاہئے کہ قوموں کو بسا اوقات مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، ہمارے مبصرین اکثر یہ مثال دیتے نظر آتے ہیں خطے کے دوسرے ممالک بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے وہ ترقی کر گئے اور ہم ایسا نہ کر پائے یقیناً ایسا ہی ہے لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے ان ممالک کی ترقی کے لئے کئے گئے اقدامات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ چین کی مثال ہی لے لیں جہاں کسی رکن اسمبلی کے غیر ملکی شہریت تو دور کی بات محض غیر ملکی اکائونٹ رکھنے پر سخت ترین سزا ہے یعنی سزائے موت، اسی طرح کے دیگر بہت سے اقدامات نے چین کو معاشی قوت بنایا۔ مغرب کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ترقی بھی اس کی پالیسیوں کی مرہون منت ہے، وہاں ٹیکس نہ دینا جرم ہے اور اس پر سزا بھی کڑی ہے۔ حکومت ِ پاکستان بھی اب اسی راہ پر چل رہی ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر ہم بھی ترقی و خوشحالی کی منزل پا سکتے ہیں، حکومت کے یہ سخت اقدامات بالآخر ہماری معیشت کو توانا بنا دیں گے لہٰذا خواہی نخواہی یہ کڑوی گولی ہمیں نگلنا ہی ہو گی۔ کسی کو کوئی تحفظات ہوں تو وہ ان کا مثبت انداز میں اظہار کر کے حکومت کی توجہ حاصل کرے، اشتعال کی راہ درست نہیں اور بے سود بھی رہے گی۔

تازہ ترین