• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک 50 سالہ بیوی نے اپنے بوڑھے شوہر کو آواز دی کہ’’ اے جی سنئیے گا یہ الماری کادروازہ نہیں کھل رہا‘‘

بوڑھا شوہر آگ بڑھا اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا ،یہ دیکھ کر جوان بیٹا آگے بڑھا ، ذرا سا زور لگایا تو دروازہ آسانی سے کھل گیا جوش میں بولا

’’ لو جی ، یہ بھی کوئی مشکل کام تھا ‘‘

باپ مسکرایا اور بولا

’’بیٹا یاد ہے جب تو بچہ تھا اور گھر کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا تھا تو میں جان بوجھ کر آہستہ آہستہ تیرے دروازے کھولنے میں اس طرح مدد کرتا تھا کہ تو سمجھے کہ دروازہ تو نے خود کھولا ہے، تا کہ تیرے اندر اعتماد آئیے ، تیرا دل نہ ٹوٹنے پا ئےاور تیری ہمت بڑھے‘‘

باپ کی بات سن کر جوان بیٹا خاموش ہوگیا

اسی طرح ایک دن بوڑھے باپ نے بیٹے سے پوچھا ،یہ جو تو نے نئی گاڑی خریدی ہے اس کا نام کیا ہے ؟

بیٹا بولا ہنڈا "

چند گھنٹوں بعد بوڑھے باپ نے دوبارہ سوال کیا ؟

بیٹا حیران ہو کر بولا

ابو ہنڈا "

رات کو سونے سے پہلے باپ نے پھر سوال کیا کہ’’ کیا نام بتایا تھا ؟گاڑی کا‘‘

اب تو جوان بیٹا کنٹرول نہ کر سکا اور غصے میں بولا

آپ کو کتنی مرتبہ بتاؤں ،ہنڈا ہنڈا ہنڈا !

باپ اُس وقت تو خاموش ہو گیا الماری سے 30 سالہ پرانی نوٹ بک نکالی اور ایک صفحہ کھول کر دوسرے دن بیٹے سے کہا

ذرا اس کا یہ والا صفحہ تو پڑھنا

بیٹے نے بادل ناخواستہ صفحہ، پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا تھا ،

آج میری خوشی کا بہت بڑا دن ہے، کیونکہ میرے بیٹے نے پہلی دفعہ لفظ چڑیا بولا اور مجھ سے 25 مرتبہ کہا، بابا وہ کون ہے اور میں نے خوشی اور مسرت کے ساتھ 25 مرتبہ جواب دیا ،بیٹا بولو چڑیا چڑیا چڑیا

جوان بیٹا حیرانگی سے پڑھتا گیا اور ساتھ آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری ہوتی رہی

’’ کروڑوں سلام ہوں اس ماں پر کہ جو دسترخوان پر جب بھی کھانا کم ہوتا تو

سب سے پہلا بندہ جو کہتا کہ مجھے تو آج بھوک ہی نہیں ہے وہ ہے’’ ماں‘‘

لیکن آج رات کو سونے سے پہلے اس کے پاؤں دبانے کے لیے اولاد کے پاس وقت ندارد  ہے

’’ اے کاش کہ ایسا ممکن ہوتا کہ زندگی آخر سے شروع ہوتی کہ مرتے وقت ماں کی آغوش ملتی اور جان نکلتے ہوئےاس کی میٹھی میٹھی لوری

’’ماں باپ جو بچوں کو خلوص عشق کے ساتھ انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں،

لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ بچے ان کی ویل چیئر پکڑتے ہوئے شرماتے ہیں

’’ واقعی ماں باپ دس بچوں کو سنبھال سکتے ہیں لیکن دس بچے ایک ماں باپ کو نہیں۔۔۔۔۔۔

باپ، بیٹی اور ماں

پاپا آفس میں پہنچے ہی تھے کہ اسکول سے فون آیا!

مدھرآواز میں ایک خاتون بولیں -

’’سر! آپ کی بیٹی سیکنڈ کلاس میں ہے،

میں نے اس کی کلاس ٹیچر بول رہیں ہوں.

آج پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے،رپورٹ کارڈ دکھایا جائے گا۔

آپ اپنی بیٹی کے ساتھ ٹائم پر پہنچ جائیں ۔‘‘

بیچارے پاپا کیا کرتے۔

حکم کے پابند ...

فوری طور پر چھٹی لے کر، گھر سے بیٹی کو لے کر اسکول پہنچ گئے۔

سامنے مہنگا سا سوٹ پہنے، آنکھوں پر عینک سجائے ، درمیانی عمر کی، گوری سی لیکن انتہائی تیز میم بیٹھی تھی ۔

اس سے پہلے کہ پاپا کچھ بولتے،میڈیم تقریبا ًڈانٹتے ہوئے بولیں - "اتنا لیٹ آئے ہیں ، اب انتظارکریں، میں آپ سے الگ بات کروں گی۔‘‘

پاپا نے بیٹی کی طرف دیکھا، اور دونوں خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ گئے۔

’’میم بہت غصے میں لگتی ہیں‘‘ ۔ بیٹی نے دھیرے سے کہا۔

’’تمہارا رپورٹ کارڈ تو ٹھیک ہے‘‘ ۔ پاپا آہستہ سے بولے۔

’’پتہ نہیں پاپا، میں نے تو نہیں دیکھا. ‘‘۔ بیٹی نے اپنا دفاع کیا۔

’’مجھے بھی لگتا ہے، آج تمہاری میم تمہارے ساتھ میری بھی کلاس لیں گی‘‘۔ پاپا خود کو تیار کرتے ہوئے بولے ۔

وہ دونوں آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ میم نےفارغ ہوکر کہا ، ’’جی ہاں! اب آپ دونوں آ جائیے ۔

دونوں تیزی سے گئے۔ بیٹی پاپا کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہو گئی ۔

میم- دیکھئے! آپ کی بیٹی کی شکایات تو بہت ہیں لیکن پہلے آپ امتحان کی کاپیاں اور رپورٹ دیکھئے اور بتائیے اس کو کس طرح پڑھایا جائے ؟

پہلے انگلش کی کاپی دیکھئے ۔فیل ہے آپ کی بیٹی۔

پاپا نے ایک نظر بیٹی کو دیکھا جو سہمی سی کھڑی تھی ۔

پھر مسکرا کر بولے ،انگریزی ایک غیر ملکی زبان ہے. اس عمر میں بچے اپنی زبان نہیں سمجھ پاتے تو غیر مُلکی کیسے سمجھیں گے؟

یہ میم کو غصہ دلانے کے لئے کافی تھا،

میم نے غصے سے کہا ،اچھا ،پھر یہ اردو میں فیل کیوں ہے؟

پاپا نے پھر بیٹی کی طرف دیکھا ۔۔ گویا نظروں میں اس سے شکوہ کر رہے ہوں ،پھر میم سے کہا،

اردو ایک مشکل زبان ہے. آواز اور تلفظ کی بنیاد پر. اس کو جیسا بولا جاتا ہے، ویسا لکھا جاتا ہے. اب آپ کے انگلش اسکول میں کوئی خالص اردو بولنے والا نہیں ہو گا تو یہ بولے اور لکھے گی کیسے ؟

اچھا ... تو آپ اور بچوں کے بارے میں کیا کہیں گے جس میں،

اس بار پاپا میم کی بات کاٹ کر بولے ، اور بچے کیوں فیل ہوئے یہ میں نہیں بتا سکتا ... میں تو ....

میم نے غصے میں کہا آپ پوری بات تو سن لیا کریں، میرا مطلب تھا کہ اور بچے کیسے پاس ہو گئےاور یہ دوسری کاپی دیکھیں ،

آج کے بچے جب موبائل اور لیپ ٹاپ کی رگ رگ سے واقف ہیں تو آپ کی بچی کمپیوٹر میں کیسے فیل ہو گئی؟

پاپا اس بار کاپی کو غور سے دیکھتے ہوئے، سنجیدگی سے بولے - "یہ کوئی عمر ہے کمپیوٹر پڑھنے اور موبائل استعمال کرنے کی ، ابھی تو بچوں کو کھُلے میدانوں میں کھیل کود، بھاگ دوڑ کرنی چاہیے ۔

میم کا پارہ اب ساتویں آسمان پر تھا ... وہ کاپیاں سمیٹتے ہوئے بولیں ’’سائنس کی کاپی دکھانے سے تو کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ میں بھی جانتی ہوں کہ البرٹ آئن اسٹائن بچپن میں فیل ہوتے تھے۔ ‘‘

پاپا خاموش ہی تھے ...

میم نے پھر کہا ’’یہ کلاس میں ڈسپلن میں نہیں رہتی، باتیں کرتی ہے، شور کرتی ہے، ادھر ادھر گھومتی ہے ۔‘‘

پاپا ، میم کو درمیان میں روک کر، اِدھر اُدھر نگاہ دوڑاتے ہوئے بولے، وہ سب چھوڑیئے! آپ کچھ بھول رہی ہیں. اس میں ریاضی کی کاپی کہاں ہے؟اس کا نتیجہ تو بتائیے ؟

میم- (منہ پھیرتے ہوئے) جی ہاں، اس کے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

پاپا - پھر بھی، جب ساری کاپیاں دکھا دی تو وہی کیوں باقی رہے ؟

میم نے ریاضی کی کاپی نکال کر دے دی ۔

ریاضی کے نمبر اور نتیجہ دوسروں سے یکسر مختلف تھا .... 100فیصد ...

میم اب بھی منہ پھیرے بیٹھی تھیں، لیکن پاپا پورے جوش میں بولے۔

پاپا - ہاں تو میم، میری بیٹی کو انگلش کون پڑھاتا ہے؟

میم- (آہستہ سے) میں!

پاپا - اور اردو کون پڑھاتا ہے؟

میم- ’’میں‘‘

پاپا - اور کمپیوٹر کون پڑھاتا ہے؟

میم- وہ بھی ’’میں‘‘

پاپا - اب یہ بھی بتا دیجئے کہ ریاضی کون پڑھاتا ہے؟

میم کچھ بول پاتی، پاپا اس سے پہلے ہی جواب دے کر کھڑے ہو گئے۔۔۔

’’میں‘‘ پڑھاتا ہوں۔

میم - (شرماتے ہوئے) جی ہاں پتہ ہے۔

پاپا- تو اچھا ٹیچر کون ہے ؟؟؟؟؟

دوبارہ میری بیٹی کی شکایت مت کرنا. بچی ہے۔ شور شرابا تو کرے گی ہی ۔

میم تلملا کر کھڑی ہو گئیں اور زور سے بولیں -

ملنا تم دونوں آج گھر میں، دونوں باپ بیٹی کی خبر لیتی ہوں !!!

تازہ ترین