• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب انسان کا سائنسی اور سماجی علم ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا تب وہ اپنی ذہنی تصوراتی وسعت اور امکانی طاقتوں کے حصول کے لئے داستانیں تخلیق کرتا تھا۔ اس نے ہوا میں اڑنے والے قالینوں کا تصور بنا لیا تھا اور فطرت کے ہاتھوں مجبور زندگی میں بے پناہ طاقت کے لئے الہ دین کا چراغ ایجاد کر لیا تھا۔ آج اس تصوراتی دنیاکا بہت سا حصہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اسی طرح کی داستانوں میں جنوں اور پریوں کی کہانیاں ہوتی تھیں جن میں یہ ذکر بار بار آتا تھا کہ جن کی روح طوطے میں جاگزین ہے: طوطے کو قابو کر لیں تو جن سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر داستانوں کے قالین ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز بن چکے ہیں تو پھر جناتی مشکلات سے پُر زندگیوں کا طوطا کونسا ہے جسے قابو میں لاکر سماجی کائنات میں آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں؟ اس کہانی کو بغور ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح انسان نے فطرت کی بے پناہ طاقت کو جن کا روپ دے کر اس کی روح طوطے میں مقید کر دی۔ کہانی کا جن تو تصوراتی ہے لیکن طوطا انسان کی حقیقی زندگی کا حصہ ہے جسے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔

چند روز پہلے امریکہ کی ریاست ایریزونا کے صحرا میں سات گھنٹے کے سفر میں ایک بھی پرندہ نظر نہیں آیا تو ظاہر بات ہے کہ یہاں کا داستان گو جن کی روح طوطے میں جاگزین ہونے کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ المختصر انسان لامحدود فطرت پر قابو پانے کے لئے ایک شناسا اور قابلِ گرفت پرندے یا کسی اور شے کو داستان کا حصہ بنا لیتا تھا۔ اب شاید سائنسی ترقی کے باعث داستان گوئی کا فن باقی نہیں بچا لیکن وہ ضرورتیں باقی ہیں جو اس طرح کے تصوراتی ادب کا پسِ منظر تھیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ انسان کو ٹھوس اور حقیقی مسائل در پیش تھے جو اس سے اس طرح کی داستانیں تخلیق کرواتے تھے۔ داستانوں کے دور میں انسان کشا کش زندگی کے لئے فطرت کی طاقتوں سے نبرد آزما ہو رہا تھا اور آج وہ انتہائی پیچیدہ سماج کے جن کی روح کا طوطا تلاش کر رہا ہے: بات وہی ہے صرف اس کی شکل بدل گئی ہے کیونکہ آج کچھ انسان ہی جناتی طاقتیں حاصل کر کے عام انسان کو مصائب کے صحرا میں ننگے پاؤں چلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

جیسے ہم جناتی طاقتوں کے سامنے ناتواں ہستی ہوتے ہیں ویسے ہی سماج کے معاشی اور سماجی اداروں نے ہمارے پاؤں ان دیکھی زنجیروں میں باندھے ہوئے ہیں۔ اِن بیکراں انسانی الجھنوں کے جن کی روح ’سیاست‘ کے طوطے میں مقید ہے۔ آخرش ہر ادارے کی باگ سیاست پر قابض لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہی خوشگوار یا خار زدہ زندگی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کو ایک اور تمثیل سے بھی سمجھا جا سکتا ہے: ہزار پایہ اوکٹوپس (ویسے اسے ہشت پایہ بھی مانا جاتا ہے) کی آپ ٹانگیں کاٹتے بھی جائیں تو آپ اس کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ آپ اس کا خاتمہ اس کے سر کو کچل کر ہی کر سکتے ہیں۔ معاشرہ بھی اوکٹوپس کی طرح ہے آپ اس کے مختلف سماجی، تعلیمی یا صحت سے متعلق اداروں میں فلاحی کام کرتے جائیں لیکن اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایک مسئلہ حل کریں تو دس دوسرے جنم لے لیتے ہیں۔ اس سارے مسئلے کا حل یہی ہے کہ سیاسی طاقت ایسے گروہ کے ہاتھوں میں ہو جو معاشرے میں بنیادی اداراتی تبدیلیاں لانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس حقیقت کو عوام سمجھیں یا نہ سمجھیں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور دوسرے اہلِ ثروت کو اس کا خوب علم ہے۔ اسی لئے وہ اپنا تحفظ کرنے والوں کو سیاسی مسند پر بٹھاتے ہیں جیسے امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کو۔

یہ نظریہ اپنی جگہ درست ہے کہ بہت حد تک معاشی حالات معاشرے کی جہت کا تعین کرتے ہیں لیکن خود سیاسی طاقتیں بھی معاشی مستقبل کی محرک ہوتی ہیں۔ تاریخ کے طویل المیعاد رجحان پر نظر ڈالیں تو ہندوستان میں پہلی صدی سے لیکر 1000تک مجموعی پیداوار میں کوئی ترقی نہیں ہوئی لیکن 1500تک آتے آتے قومی آمدنی تقریباً دوگنی (33بلین سے بڑھ کر 60بلین ڈالر) ہو گئی۔ مغلیہ دور کے تین سو برسوں میں کل آمدنی اسی فیصد کے قریب بڑھ کر 111بلین ڈالر ہو گئی۔ اس سارے عرصے میں سیاسی طاقتوں کی تبدیلی اس کی بنیادی وجہ تھی۔ خاندانِ غلاماں کے دور سے جو سیاسی استحکام آیا اس کی وجہ سے اگلے اڑھائی سو سال تک کوئی بیرونی حملہ آور ہندوستان پر قبضہ نہیں کر سکا لیکن جب لودھیوں کے آتے آتے سیاسی انحطاط اپنے عروج پر پہنچ گیا تو مغلوں نے ایک نئے سیاسی نظام کے تحت ترقی کی تدریجِ نو کی۔ ہمارے اپنے زمانے میں موجودہ چین کی بنیاد ماؤزے تنگ نے سیاسی قبضہ کر کے رکھی۔ مغرب میں جمہوری اور سوشل ڈیمو کریٹک سیاسی طاقتوں نے انسانی زندگی کے معیار کو بلند کیا۔ یہی کچھ ہمارے اپنے خطے اور ملک پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

پاکستان اور برصغیر کے دوسرے ملکوں کی ترقی کی رفتار میں زمین آسمان کا فرق نسلی، جغرافیائی حتیٰ کہ تاریخی بنیادوں پر بھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ اس فرق کی تفسیر صرف سیاسی طاقتوں کی ترکیب سے بیان کی جا سکتی ہے۔ رفاہی کام کرنے والوں، دور دراز علاقوں میں اسکول اور اسپتال بنانے والوں کے لئے بری خبر یہ ہے کہ وہ اپنی روحانی تسکین کے لئے یہ کام بیشک کر لیں لیکن اس سے نہ ہی اجتماعی معاشرے میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی کروڑوں پر محیط خلقِ خدا کی زندگیوں میں کوئی آسانی پیدا ہو گی: اس کے لئے بنیادی سیاسی اور نظریاتی ڈھانچے میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ ملکی اداروں کی روح سیاسی طوطے کے اندر مقیم ہے اور سیاسی ادارہ ہی اوکٹوپس کا سر ہے۔ باقی آپ خود صاحب عقل ہیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین