• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈھائی سو سال پرانی بستی ابھی تک بنیادی ضروریات سے محروم ہے

محمد اسامہ

کراچی کا خوبصورت ترین ساحل اور ماہی گیروں کی دوسری بڑی بستی ’’مبارک ولیج‘‘۔ میں نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ آپ کراچی سے واپس تو جاسکتے ہیں لیکن کراچی شہر کی رنگینیوں کو اپنے دل سے نکال باہر نہیں کر سکتے۔دوسرے شہر وں سے لوگ کراچی کی سیر کو آئیں اور ساحل سمندر پر نہ جائیں تو یا تقریباً نا ممکن سا لگتا ہے۔ کیوں ساحل پرجائے بغیر کراچی کی تفریح ادھوری ہے۔ سی ویو، دودریا، کلفٹن بیچ، ہاکس بے، پورٹ گرینڈ تو آپ نے دیکھا ہی ہوگا ۔آج ہم آپ کو کراچی کی ایک ایسی ساحلی پٹی کے بارے میں بتائیں گے جوکراچی سےتیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ماہی گیروں کی دوسری بڑی بستی ہے، جسے ہم مبارک ولیج کے نام سے جانتے ہیں ۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا نام ہے، مبارک ولیج۔ مبارک،توچلیں کسی بلوچ کانام ہوسکتا ہے، یہ ولیج تو انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ وجہ تسمیہ کیاہے؟ کہیں انگریزوں نےتو اس کانام نہیں رکھا۔ مبارک ولیج کی تاریخ توکافی پرانی ہے۔ نام کی وجہ تسمیہ تونہیں معلوم، البتہ یہیں پرانگریزوں کاایک بنگلہ ہوا کرتا تھا، اسی وجہ سے یہ علاقہ بنگلوکےنام سےبھی مشہورہے۔ جب کہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں برٹش امپائرکےافسران یہاںتعینات تھے۔ شاید انہوں نے ولیج کانام اس میں اضافہ کردیاہو۔ خیر یہ نام جو بھی ہو لیکن یہاں کی خوبصورتی، حسین اور دلکش نظاروں سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مبارک ولیج کی سرحدیں گڈانی بلوچستان سے ملتی ہیں۔ اگر بات کی جائے یہاں کے حسین نظاروں کی تو یہاں سنہری چٹانوں اورنیلگوںشفاف پانی کےانوکھےامتزاج کے گھیرے میں لپٹےنظر آتے ہیں۔ شہر کراچی کی مصروفیات اور شوروغل سےدوریہ مقام آپ کابےپناہ محبت کےساتھ استقبال کرتاہے۔یہ ایسا ساحلی مقام ہے، جہاں تک پہنچنے کےلئے دشوار گزار پہاڑی رستوں سے گزرنا پڑتا ہے، مگر نئے دلفریب نظارے مہم جو افراد کے قدموں کو حوصلہ دیتے ہیں اور سفرکو ُپر لطف بنادیتے ہیں۔اس ساحل کے نظاروں کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے، ایک طرف پہاڑی سلسلہ، دوسری طرف صاف ستھرا ساحل، تاحد نگاہ نیلا سمندر، شیشے کی طرح شفاف پانی، پتھروں سے ٹکراتی سمندر کی لہریں۔یہاں سکون ہے، بس موجوں کا شور اٹھ رہا ہے۔ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ بھی کراچی ہے۔ اس قدر پرسکون ماحول میں انسان اپنی پریشانیاں، مایوسیاں غرض کہ تمام تر الجھنیں بھول جاتا ہے۔ ساحل کےقریب پہنچتے ہی وہاں پانی میں ڈولتی لنگر انداز کشتیاں نظرآنےلگتی ہیں۔ساحلِ سمندر سے منسلک پہاڑی سے اْس جانب ترتیب سے بنی پکی عمارتیں نظر آئیں۔ تاہم وہاں کوئی مکین نظر نہیں آیا۔ گاؤں کی اس آبادی سے متعلق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سندھی مچھیروں کی بستی کہلاتی ہے۔ جب مچھلی کا کاروبار ماند پڑ گیا تو یہ نقل مکانی کر گئے۔ ان کے نقل مکانی کر جانے سے یہ ایریا غیر آباد ہو گیا اور ان کے گھر کھنڈر میں تبدیل ہو گئے۔ خدا جانے کیا سچ اور کیا جھوٹ۔ ایسا کیا ہوا کہ یہ گاؤں اجڑ گیا، ان مکانات کے مکین کہاں چلے گئے؟ کیا اس بستی کو سمندر نگل گیا تھا؟ یا کچھ اور ہوا تھا؟ پہلی بار ان ویران گھروں کو دیکھ کر کسی انگریزی ہورر فلم کے پراسرار مقام کا خیال آتا ہے۔یہ انوکھا نامعلوم ساحل جہاں لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہا ہے وہیں یہ اجاڑ بستی تجسس بڑھارہی ہے اور ذہن میں سوال اٹھارہی ہے۔

کراچی کی سب سے قدیم اور پرانی ساحلی بستی مبارک ولیج کی آبادی تقریبا چار ہزارنفوس پرمشتمل ہےاوراس کے مکین پاکستان کے سب سےترقی یافتہ شہرکے پڑوس میں آباد ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سےمحروم ہیں۔ یہاں کے باسیوں کی زندگی انتہائی مشکل ہے، مقامی آبادی کےگھرکچے بنے ہوئے ہیں اورسیلاب یاطوفانی ہواوں کاسامناکرنے کی طاقت نہیں رکھتے، یہ بستی زندگی کا بنیادی جزو سمجھی جانےوالی سہولیت یعنی بجلی اورپانی سےیکسرمحروم ہے اور سمندرکنارے آباد مقامی افراد کی ضروریاتِ زندگی کادارومداردوردرازواقع گنتی کےچند میٹھے پانی کےکنووں پر ہے۔

یہاں کے باسیوں کی اکثریت کا روزگار ماہی گیری سے جڑا ہے، مگرکسی اور جگہ کے ماہی گیروں کے مقابلے میں مبارک ولیج کے رہائشی فشنگ نیٹ کی بجائے اپنی آمدنی اسپورٹس فشنگ کے ذریعے کماتے ہیں، وہ شکار کے لیے کئی طرح کی تیکنیکس استعمال کرتے ہیں جیسے فشنگ راڈز اور ہیڈ لائنز وغیرہ۔ بیشتر ماہی گیروں کے روزگار کا انحصار چھوٹی کشتیوں پر ہے ،جنھیں روایتی طریقے سے تیار کیا جاتا ہے اور وہ طوفانی موسم میں سفر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اوران سے مضبوط کرنٹ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں یہ ماہی گیر مون سون کے دوران اپنی سرگرمیاں معطل کردیتے ہیں اور اپنے علاقے کے قریب واقع گراؤنڈ میں فٹبال میچز کھیل کر اپنا وقت گزارنے لگتے ہیں۔

یہاں کے رہائشیوں کے پاس کچھ نہیں، مگر پھر بھی یہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔کتے ساحل پر کھیل رہے ہوتے ہیں، پرجوش بچے ارگرد بھاگ رہے ہوتے ہیں اس مقام کی ہر چیز ہی حیرت میں مبتلا کردینے والی ہے۔

سامراجی عہد سے قبل کی یہ بستی یعنی مبارک ولیج ابھی بھی بنیادی ضروریات جیسے صاف پانی تک رسائی، بجلی، ایک جیٹی، گیس، طبی نگہداشت اور تعلیم وغیرہ سے محروم ہے۔یہ لوگ اپنے حال پر خوش ہیں، ان کا ایک دوسرے سے جڑا معاشرہ دیانتداری اور محبت سے گندھا ہوا ہے۔ مبارک ولیج میں بلوچ قوم کے مختلف قبائل آباد ہیں ۔جن میں ساجدی، محمد حسنی، بزنجو شامل ہیں۔ سب کی بولی بلوچی ہے۔ اور ان کا تعلق ذکری کمیونٹی سے ہے۔ یہ کمیونٹی پرامن طور پر یہاں رہ رہی ہے۔ علاقے میں تعلیم کا نظام ہائی اسکول تک ہے۔ ہائی اسکول سے فارغ ہوتے ہی بہت کم نوجوان شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم علاقے کی تعلیمی نظام سے سات کے قریب نوجوان استفادہ حاصل کرتے ہوئے ٹیچر بنے۔ مگر علاقے میں صحت کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ خواتین میں شرح تعلیم نہ ہونے کےبرابر ہے۔

علاقہ مکینوں کی خواہش ہے کہ ان کے لیے جیٹی کا بندوبست کیا جائے اور انہیں گیس و بجلی کی سہولت فراہم کی جائے۔ جو مبارک ولیج کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے۔

 بدقسمتی سےکراچی کےحسین ساحل مبارک ولیج کی خوب صورتی گذشتہ برس ساحل پر پُراسرار طور پرآنے والے تیل کی وجہ سے ماندپڑگئی تھی۔تیل کہاں سے آیا اس کی وجہ تو معلوم نہ ہوسکی لک لیکن خوبصورت ساحل بدبودار اور سیاہ خام تیل کی وجہ سے شدید آلودگی کی لپیٹ میں آگیا۔ خام تیل سے جہاں آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں وہیں ماہی گیروں کوبھی شدید مشکلات کا سامنا رہا ۔ مبارک ولیج کے ساحل پر تیل کے رساؤسے پیدا ہونے والی آلودگی کو صاف کرنے کے لئے پاک بحریہ کا میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور دیگر اداروں نے تعاون کیا۔ پاک بحریہ کے سو سے زائد جوانوں نےساحل کی صفائی میں حصہ لیا۔آپریشن کی دوران 15 ٹن سے زائد اآئل ویسٹ کو ساحل سے صاف کیا گیا۔مقامی ماہی گیروں نے ساحل کے صفائی کے لئے پاک بحریہ کے جوانوں کی تعریف کی اور بحریہ کی حق میں نعرے لگائے۔

تازہ ترین