• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواب کا یہ موسم پچیس برس بعد لوٹا ہے۔ 1988ء کاسال بھی کچھ عجب تھا۔ مشرقی یورپ میں آمریت کی فصیل ڈھے رہی تھی۔ لاطینی امریکا میں جمہوریت کی سرسوں پھول رہی تھی۔ چین کے تیننامن چوک میں نوجوانوں کے پرے ٹینکوں سے نبرد آزما تھے۔ نیپال سے لے کر برما تک تبدیلی کی ہوا چل رہی تھی۔ پاکستان میں آمریت کی طویل خزاں ختم ہوئی تھی ۔ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ آئی اے رحمن نے کہا تھا،’ ’آج پاکستان میں جو پر امید نہیں ہے، اس کے دل میں کچھ کھوٹ ہے“۔ امید کی یہ فراوانی تو نسل انسانی کو ہر روز میسر نہیں آتی۔ فیض صاحب کے لفظوں میں ”یوں لگتا تھا، دو ہاتھ لگے اور بیڑی پورم پار ہوئی“۔ مگر بھائی، خوشیوں کی وہ برکھا کہیں اور برسی۔ ہمارے دھان تو سوکھے ہی رہے۔ ہمارے مانجھی بہت انجان تھے اور تالاب کی حلقہ بندی مگر مچھوں نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی۔ ہم پر گزرنے والی اس واردات کو قتیل شفائی نے دستاویز کیا تھا ۔
ہمیں ربع صدی کی رائیگانی کے بعد یہ دن دوبارہ دیکھنا نصیب ہوئے ہیں۔ ایک منتخب حکومت اپنی میعاد پوری کر کے رخصت ہونے کو ہے اور عوام نے اس حکومت کی کارکردگی پر اپنا فیصلہ سنانا ہے۔ جمہوریت میں عوام اپنا فیصلہ سڑکوں پر گھیراؤ جلاؤ اور لاٹھی گولی کی صورت میں نہیں، آئین میں دیے گئے طریقہٴ کار کے مطابق بیلٹ باکس پر صادر کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے موجودہ حکومت کی کارکردگی پر صاد کیا تو بسم اللہ۔ اور اگر انہوں نے یہ امانت کسی اور کے سپرد کرنا چاہی تو سبحان اللہ۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جس دن ووٹ کے ذریعے حکومت کے عوامی احتساب کی مشق کامیابی سے سر کر لی جائے گی، کسی بھی سیاسی جماعت کی فتح و شکست سے قطع نظر یہ پاکستانی قوم کی جیت ہو گی۔ ہمارے آئین کی بالادستی کا اعلان ہو گا۔ اس سے ہمارے وفاق کے قابل عمل ہونے کی تصدیق ہو گی۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لسانی، نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان عمرانی معاہدے پر مہر تصدیق ثبت ہو گی۔ یہ ثابت ہو جائے گا کہ پاکستان کے لوگ کسی برخود غلط مسیحا کی مداخلت کے بغیر اپنے حکمران چننے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ یہ ہے وہ امید جس سے ہماری کشت ویراں سرسبز ہو رہی ہے۔
پچیس برس پہلے جب ضیاء الحق منظر عام سے رخصت ہو ا تھا تو ہماری امید ایک حادثے کی مرہون منت تھی۔ آمریت کا ورود ایک جرم کی طرح ناگہانی ہوتا ہے اور آمریت کی رخصتی سیلاب کا اترنا کہ بے کس آنکھوں میں آفت دور ہونے کی خوشی نہیں جاگتی۔ اپنے گھر کے ملبے کا منظر گہری چوٹ سے اٹھنے والی ٹیسوں کی طرح بار بار ابھرتا ہے۔ اس بار ہماری مٹی میں بہار کے جو امکان روشن ہوئے ہیں ان میں ہماری سیاسی قیادت کی بالغ نظری اور ہنر کو دخل ہے۔ یہ قصہ مئی 2006ء میں میثاق جمہوریت سے شروع ہوا تھا جب شہید بے نظیر بھٹو اور محترم نواز شریف نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ یہ دستاویز ہماری سیاسی قیادت میں اس سمجھوتے کا اعلان تھی کہ جمہوری قوتیں آئندہ اپنے درمیان کسی اختلاف کی صورت میں غیر سیاسی قوتوں کے ذریعے غیر آئینی مداخلت کا سہارا نہیں لیں گی۔ اس سے زیادہ خوش آئند بات کیا ہو سکتی ہے کہ بڑے دھارے کی سیاسی قوتوں نے گزشتہ پانچ برس میں اس معاہدے کو نبھایا ہی نہیں بلکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے میثاق جمہوریت کی روح کو دستوری تائید بھی فراہم کی ہے۔ ملک کو درپیش گوناگوں مشکلات اور گمبھیر مسائل کے باوجود حکومت اور حزب اختلاف نے گزشتہ برسوں میں جس طرح جمہوری بندوبست کو پروان چڑھایا ہے، دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی کسی قیادت نے ماضی میں ایسے سیاسی تدبر اور تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس بیان کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں 1971ء کے پرآشوب عہد کو چھوڑ کر معاشی، سماجی، قانونی، عسکری اور سفارتی سطح پر کبھی ایسے کٹھن حالات درپیش نہیں ہوئے۔ اگر ان حالات میں ہماری سیاسی قیادت دستوری حکمرانی کا پرچم بلند رکھ سکتی ہے تو یقیناً ملک کو درپیش دیگر مسائل پر قابو پا کر معاشی ترقی کا راستہ بھی ہموار کر سکتی ہے۔ جمہوری کارکنوں کے لیے تشویش ناک معاملہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں کچھ مخصوص حلقے ملک کو درپیش حقیقی مسائل کی بجائے جمہوری نظام کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں عدلیہ نے بار بار آئینی بندوبست کی اہمیت سے آگاہ کیا ہے لیکن ان عناصر نے اپنے تئیں عدلیہ کو مورچہ بنا کر جمہوریت پر چاند ماری جاری رکھی ہے۔ فوج کی طرف سے دستور کی پابندی کے بار بار اعلانات کے باوجود یہ ٹولہ بارش میں بھیگے چوپائے کی طرح فوج کی طرف منہ کرکے زور زور سے چیختا ہے۔ جمہوریت کے یہ گورکن اپنی ہٹ کے ایسے پکے ہیں کہ انہیں تخریب کی امید میں منصور اعجاز سے لے کر طاہر القادری تک کسی بھی غول بیابانی سے رجوع کرنے میں عار نہیں۔ کبھی یہ الیکشن کمیشن پر حملہ آور ہوتے ہیں تو کبھی باسٹھ تریسٹھ کی مجنیق سے سیاسی قیادت پر سنگ زنی کرتے ہیں۔ اشتعال انگیزی کا وہ کونسا حربہ ہے جو اس گروہ نے حکومت اور حزب اختلاف پر نہیں آزمایا۔ اس قبیلے کے کچھ سورما خود کو باکردار صحافی قرار دیتے ہیں۔ ان کے قلم کی حرمت کا ایک سادہ امتحان تو یہی ہے کہ پرویز مشرف کی مخالفت کے ان دعویداروں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی فرد عمل سے کوئی ایسی تحریر نکال کر دکھائیں جو انہوں نے اکتوبر 1999ء میں آمریت کی مخالفت میں لکھی ہو۔ یہ عجب تماشا ہے کہ ہر طرح کی گالی دشنام، الزام اور تنقید کا نشانہ بننے والے سیاست دانوں نے تو جمہوریت کی آبیاری کا ڈھنگ لشٹم پشٹم سیکھ لیا لیکن عقل و دانش پر اجارے کا دعویٰ رکھنے والوں نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے۔ اس سے دو الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جمہوری نظام پر ان وسیع البنیاد حملوں کی موجودگی میں سیاسی رہنماؤں کے کسی غلط اقدام پر نیک نیتی سے تنقید کی راہ بھی کھوٹی ہوتی ہے۔ دوسرا اور کہیں زیادہ خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ اس بے یقینی کی فضا میں سیاسی اور ریاستی اداروں میں باہم اعتماد کی وہ سطح پیدا نہیں ہو سکتی جو سنجیدہ اور ذمہ دارانہ فیصلوں کے لیے درکار ہوتی ہے۔
آئندہ انتخاب میں اب زیادہ وقت نہیں رہا لیکن خدشہ ہے اس مختصر مدت کے دوران یہ خوش نااندیش گروہ اپنے مذموم مفادات کے لیے کہیں زیادہ زور و شور سے ہاتھ پاؤں مارے گا۔ بدقسمتی سے ماضی میں بار بار ایسا ہوا کہ ہماری اجتماعی کشتی انتخابات کی چٹان سے ٹکرا کر طویل بحرانوں کے بھنور میں جا پھنسی۔ سو امید کے اس موسم میں فروری کا نیلا آسمان طوفان کے سیاہ بادلوں سے خالی نہیں ہے۔ پچیس سال پہلے جو نسل جمہوری معاشرے کے فروغ کا خواب دیکھ رہی تھی، وہ اب ادھیڑ عمری میں داخل ہو چکی ہے۔ اب اس نسل کو اپنے لیے نہیں اپنی آئندہ نسلوں کے لیے دھوپ اور ہریالی کی تلاش ہے۔ تانتیا ٹوپے روہیل کھنڈ میں شکست کھا کر نیپال کے جنگلوں میں روپوش تھا۔ اس کے ایک ساتھی نے اس سے لڑائی جاری رکھنے کا جواز پوچھا۔ آزادی کے اس سپاہی کا بیان سادہ تھا۔ ”میں پہلے ہندوستان کے تخت کے لیے لڑ رہا تھا۔ اب ہندوستان کی آتما کے لیے لڑ رہا ہوں۔ وہ لڑائی ہار گیا۔ یہ جنگ نہیں ہاروں گا“۔
تازہ ترین