• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کارمائن گیلو کا شمار دنیا کے ’بیسٹ سیلنگ‘ مصنفین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنا پورا کیریئر ابلاغ کے شعبے میں گزارا ہے، وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے اور برانڈ ایڈوائزری کرتے ہیں۔ کارمائن گیلو کہتے ہیں کہ جدید کاروباری دنیا میں سامنے والے کو اپنی بات سے قائل کرنے کا قدیم ہنر کہیں کھو کر رہ گیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس قدیم ہنر کو پھر سے زندہ کریں۔ ’فائیو اسٹارز:دا کمیونی کیشن سیکریٹس ٹو گیٹ فرام گُڈ ٹو گریٹ‘ ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب کا نام ہے۔ اچھی کمیونی کیشن اِسکلز کی اہمیت کے حوالے سے وہ کہتے ہیں، ’’پوری تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، دوسروں کو اپنی بات پر قائل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد ناقابلِ  مزاحمت اور ناقابلِ تسخیر رہے ہیں۔ لیکن تاریخ میں ابلاغ کے ہنر کی جس قدر زیادہ اہمیت آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھی‘‘۔

ابلاغ کے ہنر یعنی کمیونی کیشن اِسکلز پر کام کرنے والے اسپیکرز اور ماہرین کے مطابق، آج کے زمانے میں وہی شخص دولت کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جو اپنے آئیڈیاز کو بہتر طور پر پیش کرسکتا ہو اور بہتر طور پر اپنی بات اور رائے دوسروں تک پہنچا سکتا ہو۔

زرعی دور میں، ایک کاشتکار جو اپنی زمین میں زیادہ محنت سے ہل چلاتا تھا، اس کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح صنعتی دور میں، ایک فیکٹری مزدور جو اپنے ساتھی مزدور کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے، اسے زیادہ تنخواہ نہیں ملتی۔

لیکن مؤرخین، معیشت دان، ذاتی کاروبار کرنے والے افراد اور وینچر کیپٹلسٹ ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت، عالمگیریت اور آٹومیشن کے اس دور میں ایک ہنر جو ہمیں نہ صرف اپنی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی سے ممتاز بناسکتا ہے بلکہ اپنے ہم عصروں پر بھی سبقت دِلا سکتا ہے وہ ہے’’دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھنے کا قدیم ہنر‘‘۔ یہ وہ صلاحیت ہے، جس کے ذریعے آپ آئیڈیاز اور الفاظ کو یکجا کرتے ہوئے لوگوں کے تصورات کو چنگاری لگاسکتے ہیں۔

ابلاغ کے جدید ذرائع

دورِ جدید میں ٹیکنالوجی نےانسان کی دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیتوں کو متاثر کیا ہے۔ انسان کا ٹیکنالوجی پر بڑھتا انحصار، دوسروں کو قائل کرنے کی شخصی صلاحیت کی اہمیت کو بتدریج کم کررہا ہے مثلاً:ای میل، ٹیکسٹ میسج، پاور پوائنٹ پریزنٹیشن وغیرہ نے ابلاغ کے طریقہ کار کو بدل دیا ہے۔ کارمائن گیلو کہتے ہیں، ’’اس سب کے باوجود، انسان کو اپنے دماغ کی وجہ سے دیگر تمام ذرائع ابلاغ پر فوقیت حاصل ہے اور رہے گی۔ جس طرح ہم پیغام پہنچاتے ہیں، جس طرح ہم کہانی کی صورت میں معلومات کو آگے بڑھاتے ہیں، اس میں جذبات اور ہمدردی کو شامل کرتے ہیں، ان تمام باتوں میں قدیم دور سے لے کر ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اس لیے میں دوسروں کو اپنی بات سے قائل کرنے کی قدیم صلاحیت کو ایک مسابقتی ہنر قرار دیتا ہوں۔ یہ ایک قدیم ہنر ہے جو کہ پہلے سے موجود ہے، ہمیں اسے صرف اپنی کاروباری دنیا میں پھر سے زندہ کرنا ہے‘‘۔

کارپوریٹ کلچر اور ابلاغ

کارپوریٹ دنیا میں ابلاغ کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ SAPایک عالمی سوفٹ ویئر کمپنی ہے، گزشتہ سال اس کمپنی نے مارکیٹنگ منیجر کے لیے ایک نسبتاً کم تجربہ کار خاتون پروفیشنل کا انتخاب کیا، تاہم اس عہدے کے لیے انھیں ’چیف اسٹوری ٹیلر‘ کا ٹائٹل دیا گیا ہے۔ اسٹوری ٹیلنگ کوئی نیا شعبہ نہیں ہے، یہ ارسطو کے زمانے سے کی جارہی ہے۔ کمپنیوں کو آج کے انتہائی مسابقتی زمانے میں یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ صرف انجینئرنگ کی اصطلاحات استعمال کرکے مقابلہ نہیں کرسکتے، کیونکہ سوفٹ ویئر ایک انتہائی پیچیدہ کاروبار ہے، جسے ایک اوسط شخص نہیں سمجھ سکتا۔ وہ اپنے پراڈکٹس کو بیچنے اور صارفین کو سمجھانے کے لیے اسٹوری ٹیلنگ کا آلہ استعمال کرتے ہیں۔

اویناش کوشک کا شمار گوگل کے چند ٹاپ ایگزیکٹوز میں ہوتا ہے اور وہ ویب انالیٹکس کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہمارے پاس سارے جہاں کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہے۔ حجم کے لحاظ سے ہمارے ڈیٹا کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر ہم اس ڈیٹا کو اپنے صارف تک پہنچانے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، اسے یہ نہ سمجھا سکیں کہ یہ ڈیٹا حقیقی دنیا پر کس طرح لاگو ہوتا ہے اور ان کے کاروبار کو کس طرح بہتر بناتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ناکام ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال میں ہماری کمپنی کی دنیا کے سب سے بڑے ڈیٹا بیس ہونے کی اہمیت ختم ہوجائے گی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ گوگل میں بہتر کہانی سُنانے والے، بہتر ابلاغ کرنے والےاور بہتر قائل کرنے والے کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے او رمعلومات کی پیکیجنگ اس طرح کی جارہی ہے جو زیادہ واضح، زیادہ قابلِ فہم اور یادگار ہو۔

ارسطو کا طریقہ ابلاغ

اگر آپ حالیہ دور کے عظیم سیاسی رہنماؤں ابراہم لنکن، جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو دیکھیں اور ان کی یادگار تقاریر اور پریزنٹیشنز کا مشاہدہ کریں تو آپ کو اس میں ارسطو کا ’تھری پارٹ فارمولا فار پرسوایشن‘ نظر آئے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنا نظریہ، سوچ یا ذہن تبدیل کریں تو اس کے لیے تین چیزیں کرنا ہوں گی۔ 1) آپ کی کچھ اقدار ہونی چاہئیں، جس کا مطلب اچھی ساکھ اور کردار ہے۔2) آپ کے پاس اپنی دلیل کا دفاع کرنے کے لیے منطقی ترتیب ہونی چاہیے۔ کاروبار میں اس سے مراد ڈیٹا اور ایسے شواہد کا دستیاب ہونا ہے، جو آپ کی دلیل کو مضبوط کر سکیں۔ 3) آپ کسی کے دماغ کو جذبات او ررقت آمیز احساس پیدا کیے بغیر تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ چاہے ہمیں اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنی ہو یا انتخاب والے دن کسی کو ووٹ دینا ہو، ہمارے جذباتی بیانیے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تازہ ترین