درجنوں افراد کی ہلاکت کے باوجود اس کا کاروبار ابھی بھی جاری ہے
نشے کی لت نے نوجوان نسل کونہ صرف ناکارہ بنا دیا ہے بلکہ ان کی زندگیاں بھی نگلنا شروع کردی ہیں۔غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے سے محروم رہتے ہیں اس لیے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں چرس، بھنگ، کچی شراب، مین پوری، گٹکااور افیون کا نشہ جہاں عام ہے وہاں شہری علاقوں میں ہیروئن ،مین پوری، شیشہ ، گٹکا اور’’ اکیس سو‘‘ کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے ۔فصلیں کاشت کرنے والے مفلوک الحال کسانوں سے لے کر، یونی ورسٹی جیسی اعلیٰ ترین درس گاہ بھی منشیات کی لعنت سے آلودہ ہورہی ہے۔ روز مرہ دیہاڑی کمانے والا مزدور بھی نشے کا شکار ہے اور اپنی لت کو پوری کرنے کے لئے چرس کا یہ کہہ کر سہارا لیتا ہے کہ سارے دن کی کام کی تھکن جس میں جسم کا جوڑ جوڑ ٹوٹ رہا ہوتا ہے تھوڑے سے خرچ میں دور ہوجاتی ہے۔ نشے کے متعلق ملک میں آگہی کا سسٹم نہ ہونے اور اہل خانہ کی عدم توجہی کے سبب ،ہماری نوجوان نسل تباہی کے غاروں میں گرتی جارہی ہے۔ منشیات کا مذموم کاروبار دنیا کے انتہائی منافع بخش کاروبار میں شمار ہوتا ہے ۔ہیروئن بنانے والی فیکٹریاں قبائلی علاقوں میں کام کررہی ہیں، جہاں سے ان کی سپلائی ملک کے طول و عرض میں کی جاتی ہے۔
ہیروئن سے بھی زیادہ خطرناک نشہ شیشہ کا ہے، جسے آئس بھی کہتے ہیں۔یہ نشہ ملک کے بڑےشہروںمیں استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ نشہ جو خفیف مقدار میں استعمال ہوتا ہے اس پر حکومت اس وجہ سے بھی کارروائی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ اس نشے کا شکار وہ بااثر گھرانے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جن کے بڑے حکومت میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔ملکی قوانین میں یہ سقم پایا جاتا ہے کہ سو گرام سے کم منشیات رکھنے والے پر ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیا جاسکتا جبکہ شیشہ دو چار گرام کی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ درد کش انجکشنز بھی نشے کی طلب پوری کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
نواب شاہ کے شہری اور دیہی علاقوں میں کچی شراب پینے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔گزشتہ سال زہریلی شراب پینے کے باعث ایک درجن سے زائد فراد کی ہلاکتوں کا روح فرسا واقعہ پیش آیا تھا، جہاں کچی شراب پی کر ایک درجن سے زائد افراد زندگی موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اس کے باوجود یہ کاروبار اب بھی جاری ہےاور’’منی شراب فیکٹریوں ‘‘میں لگی بھٹیاں شراب کشید کرنے میں مصروف ہیں۔ پولیس کی انتہائی کوششوں کے باوجود ان فیکٹریوں کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا، دل چسپ بات یہ ہے کہ کچی شراب جسے حرف عام میں ’’ ٹھرا‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے گاہکوں کی تعداد کا اصل پتہ دن ڈھلنے کے بعد اس وقت لگتا ہے جب منشیات کے عادی افراد،شہر کی نشیبی بستیوں،کچی آبادیوں اور گاؤں گوٹھوں میں نشے میں دھت ہوکر پرواز کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کچی شراب کی بھٹیوں اور منی فیکٹریوں کے خلاف سخت ترین اقدامات کیے جانا چاہئیں ۔
گزشتہ ماہ سندھ بھر میںمنشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی گئیں جن میں سے ایک کارروائی کے دوران 5 کلو گرام چرس برآمد کرلی ہے ۔ پنگریو سے نمائندے کے مطابق بدین پولیس نے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرکے 10ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے ،ملزمان کے قبضے سے گٹکے کی ہزاروں پڑیاں برآمد کی گئی ہیں۔ ٹنڈو باگو پولیس نے دوران گشت 2 گٹکا فروشوں اسماعیل ہالیپوٹو اور کونپو کو گرفتار کرکے ملزمان کے قبضے سے گٹکے کی 20ہزار پڑیاں برآمد کرلیں۔ لنواری شریف پولیس نے کچی شراب کی بھٹی پر چھاپہ مار کر 80 لٹرکچی شراب برآمد کر کے ایک ملزم پاندھی جونیجو کو گرفتار کرلیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منشیات کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں جب کہ عوام کے لیے ذرائع ابلاغ اور محلے کی سطح پر منشیات کے مضر اثرات کے بارے میں آگہی پروگرام شروع کیے جائیں۔