اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے انتخابی منشور میں اس بات کا سہرا اپنے سر لیا تھا کہ پارٹی نے پیپلز پارٹی کی اس وقت کی حکومت کو جنرل پرویز مشرف کو 3؍ نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے کیس میں استثنیٰ دینے نہیں دیا تھا لیکن 2016ء میں نواز لیگ نے اپنے ہی عزم کی خلاف ورزی کی اور آئین کے غاصب کو ملک سے جانے کیلئے محفوظ راستہ فراہم کیا۔ حکومت کا جنرل پرویز مشرف کو بظاہر علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا جمعرات کا فیصلہ ان شیخیوں کی نفی ہے جو مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں اس طرح بھگاری تھیں: ’’مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور اس کے کارکنوں نے 1999ء سے 2008ء سے مارشل لاء حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس دوران ہزاروں کارکنوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ اصولی جمہوری جدوجہد جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے پر منتج ہوئی اور 3؍ نومبر 2007ء کے اقدام پر انہیں استثنیٰ دینے کی سازش ناکام بنائی۔‘‘ دھوکا دہی کا عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا اصرار ہے کہ پرویز مشرف کو صحت کے مسائل کی وجہ سے جانے دیا گیا اور وہ کچھ ہی ہفتوں واپس آئیں گے۔ سابق آمر نے دبئی پہنچتے ہی اپنی صحت سے متعلق مصروفیات منسوخ اور سیاسی مصروفیات شروع کر دیں۔ مسلم لیگ (ن) کا اس طرح اچانک پرویز مشرف کیلئے دل کا نرم ہونا اور سپریم کورٹ کی جانب سے اسپیشل کورٹ کو آمر کا مقدمہ جلد از جلد انجام تک پہنچانے کی واضح ہدایت جاری کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد پرویز مشرف کا اس طرح اچانک روانہ ہوجانے سے کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ کوئی معاہدہ ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں لیکن پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں حکومت میں شامل ایک با اثر شخص نے ایک ذریعے کو بتایا کہ پرویز مشرف ٹرائل میں حکومت جو اشارے دے رہی ہے ان کا کچھ نہیں ہوگا۔ ذریعے نے پرویز مشرف کےمن پسند شخص کے حوالے سے بتایا ’’پریشان نہ ہوں، سب معاملہ دیکھ لیا گیا ہے۔‘‘ تاہم، ذریعے نے کہا کہ بیان میں ’’معاہدے‘‘ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ معاہدے یا مفاہمت کے حوالے سے شکوک و شبہات کو اس وقت تقویت ملتی ہے جب پرویز مشرف نتے کراچی کے مختلف اسپتالوں کے دورے کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں سنجیدہ نوعیت کے صحت کے مسائل کا سامنا ہے جبکہ جیسے ہی وہ دبئی پہنچے تو وہ سرگرم ہوگئے۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ان کا نام ختم کرنے یا سپریم کورٹ سے بھی پہلے، حکومت نے آزاد ڈاکٹرز سے پرویز مشرف کا دوبارہ چیک اپ کرانے کے معاملے میں بھی کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا کہ آیا واقعی ان کی صحت سخت خراب ہے۔ یہ بات بھی حیران کن تھی کہ سپریم کورٹ سے پہلے اٹارنی جنرل نے بھی سپریم کورٹ میں اس بات پر اصرار نہیں کیا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج نہ کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں پرویز مشرف کا چلے جانا ان بیانات کی بھی سخت نفی ہے جو پارٹی گزشہ برسوں سے اپنے منشور کے مطابق کہتی آ رہی ہے۔ کئی مرتبہ نواز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی خاطر آئین کو معطل کرنے پر وہ پرویز مشرف پر مقدمہ چلائیں گے۔ اپنے منشور میں مسلم لیگ (ن) نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے روبرو چیلنج صرف یہ نہیں کہ قانون کی بالادستی قائم اور جمہوری اداروں کے احترام کو بھی یقینی بنایا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جو سماجی انصاف پر مبنی ہو اور بلا امتیاز پاکستانیوں کا خیال رکھے۔ منشور میں قانون کی بالادستی کی اہمیت کو نمایاں کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جمہوری طرز حکمرانی کیلئے آئین اور قانون کی بالادستی ضروری ہے جس میں کرپشن، ٹیکس چوری، فالتو اخراجات، اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جائے اور عوامی خواہشات کی تکمیل کی جائے۔ منشور میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ قوم کو دلدل سے نکالنے کیلئے مناسب ڈھانچے اور حقیقت پسندانہ سوچ کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ سماجی و معاشی ترقی، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے حاصل ہوگا اور اس کی بنیاد مساوات، شفافیت اور انصاف اور ساتھ ہی جمہوری اصولوں کی بنیاد ہونا چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ لیکن کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کو جانے کی اجازت دے کر مسلم لیگ (ن) نے قانون کی بالادستی کے اس کاز کو نقصان پہنچایا ہے جس کی چیمپئن وہ عدلیہ کی بحالی سے بنی ہوئی ہے۔