اسلام آباد (طارق بٹ)پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے اور نوازشریف کے ڈیڑھ دہائی قبل خاندان سمیت سعودیہ جانے میں کئی باتیں مشترک اور متضاد ہیں۔دونوں معاملات میں، ان شخصیات کا کردار ایک دوسرے کے مقابلے میںمتضاد ہی رہا ہے۔مشرف پہلے ایک طاقتور حکمران تھے اور اب ایک سیاسی شخصیت ہیں، جب کہ نوازشریف شروع سے ہی ایک طاقتور سیاسی شخصیت رہے ہیں۔نوازشریف کو جدہ بےدخل کیے جانے سے قبل نہ صرف قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا بلکہ ان کےکاروبا ر کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔نواز شریف، شہباز شریف سمیت اہم خاندانی ارکان کو تہہ خانہ میں رکھا گیا۔یہاں تک کہ ان سے ملنے کی اجازت بھی کسی کو نہیں دی گئی، اس لحاظ سے مشرف اپنے غیر آئینی کردار میںبے حد ظالم ثابت ہوئے۔ان دونوں حکمرانوں کے ملک سے باہر جانے میںایک بات نمایاں ہے کہ دونوں خوشی سےملک سے باہر گئے۔مشرف اس لیے مطمئن تھے کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے خلاف صرف بیگم کلثوم نواز ہی آواز بلند کررہی تھیں۔اگر شریف خاندان پاکستان میں رک جاتا، تو شاید مشرف اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے۔لیکن ان کے ملک سے باہر جانے کے سبب مشرف کے لیے سیاسی میدان تقریباٌ خالی رہ گیا تھا۔شریف خاندان کے ملک بدر ہونے کو آخر وقت تک ایک راز رکھا گیا۔10دسمبر 2000 کو بیگم کلثوم نے اٹک جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی واپسی پر اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد ائرپورٹ سے جدہ کے لیے روانہ ہوگئیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ سعودیہ عرب اور قطر نے نواز شریف کو پاکستان بدر کرنے کے حوالے سے مشرف پر مسلسل دبائو رکھا۔مشرف کے حوالے سے بھی یہی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ وفاقی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔اس لیے نواز شریف کو دکھی دل کے ساتھ یہ کہنا پڑا کہ انہوں نے مشرف کو معاف کردیا ہے۔وزیر داخلہ کا یہ اعلان کرنا کہ مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کردیا گیا ہے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ 2013 سے مشرف کے ملک سے باہر جانے پر پابندی سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے تھی اور حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔اگر کوئی عدالتی حکم نہ ہوتا تو شاید حکومت ،مشرف کا نام ای سی ایل میں بھی نہ ڈالتی۔جب کہ ایک حکومتی وزیر یہ کہے کہ مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نشانہ بنانے کے لیے 3 نومبر 2007 کوایمرجنسی لگائی اورانہیں مشرف کے ملک سے باہر جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔دوسری طرف مشرف خوش ہیں کہ انہیں حکومت کی طرف سے جو خدشات تھے وہ اب نہیں رہے۔البتہ آنے والے وقت میں ان کے ساتھیوں کے لیےسیاسی اعتبار سے مشکلات ضرور ہو سکتی ہیں۔اس وقت پی پی پی کے علاوہ تقریباٌ تمام سیاسی جماعتیںحکومتی پالیسی سے متفق دکھائی دے رہی ہیں، جب کہ یہ ہی پی پی پی تھی جس نے اپنے دور حکومت میں مشرف کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت اس وقت د ی تھی جب ان پر بے نظیر قتل کیس کا مقدمہ چل رہا تھا۔اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے علاوہ خود نوازشریف بارہا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ان کی مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔سیاسی اعتبار سے بھی مشرف کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ان کی پارٹی برائے نام ہی وجود رکھتی ہے اور ان کا سیاسی قوت بننا بہت مشکل ہے، گزشتہ تین سالوں میں ان پر مختلف حوالوں سے جو دبائو تھا، اس سے وہ سمجھ چکے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے ان کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔