• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:روبینہ خان…مانچسٹر
50 سال قبل جولائی1969میں انسان نے چاند پر قدم رکھایہ انسانی تاریخ کی اہم ترین کامیابی تھی۔ نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی جہاں چاند سےمٹی اور چٹانوں کے ٹکڑے لے کر آ تھے وہاں چاند پر آئینے چھوڑ آئے تھے ۔یہ آئینے چاند پرچرخہ کاتی بڑھیا کے لئے نہیں تھے۔اب وہ کہانیاں بھی نہیں رہی ہیں اور وہ بڑھیا بھی کہیں چلی گئی۔خیر اپالو مشن کے مسافرچاند پر آئینے نصب کر آئے تھے۔استعمال ان آئینوں کا اس طرح ہے کہ لیزر سے ان آئینوں پر چمک ڈالی جاتی ہے اور لائٹ کی اسپیڈ کےذریعے چاند کا زمین سے فاصلہ ناپا جاتا ہے۔ سائنس کی دنیا حیرت انگیز ہے لیکن کائنات کی وسعت اورحیرت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ آج تک ہم زمین، آسمان ،چاند ،ستارے اورگلیکسیزکے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ کائنات کا صرف 4فیصد ہے باقی 96 فیصد سے ہم بالکل لاعلم ہیں نامعلوم کو سائنسدانوں نے پراسرار ڈارک انرجی کا نام دیا ہےآئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے بعد تین اور سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ کائنات ایکسپینڈ ہو رہی ہے اس دریافت پر 2011 میں تین سائنس دانوں کو فزکس کا نوبل پرائز بھی دیا گیا ہے۔بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو روتا ہوا دنیا میں آتا ہے ہے عجیب بات ہے کائنات بھی جب وجود میں آئی اور بگ بینگ ہوا اس کی گونج آج بھی انٹرنیٹ پر آپ سن سکتے ہیں۔سرسری نظر سے سے اردگرد کو دیکھیے تو بس چیزیں ہیںاور ان کو نام دے دیے گئےہیں لیکن حیرت اور تجسس سے دیکھیں تو سوالات ہیں۔ انسان ہمیشہ سے جاننا چاہتا ہے کہ جو ہے وہ کیا ہے ؟کیوں ہورہا ہے؟ اور یہی شرف انسانیت ہے ۔ 970قبل مسیح کی ایک تصویر آج بھی گرین فیلڈ پیرس میں ڈرائنگ کی شکل میں موجود ہے یہ ایک شہزادی نستنی بتا شو کی وصیت کا حصہ بھی ہے یہ شہزادی ایک معبد میں راہبہ تھی۔ اس تصویر میں کائنات کی علامتی تصویر پیش کی گئی ہے۔آسمان دیوی نت کا جسم ہے۔ نچھلے حصے پر زمین پڑی ہے ،جس کی ترجمانی دیوتا قیب کر رہا ہے۔ ہوا کا دیوتا شو درمیان میں دیوی کو سہارا دے کر کھڑا ہے اس تصویر کے قریب دو اور تصویریں ہیں جن میں دو چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیوی کے اوپر سے گزر رہی ہے ایک کشتی میں سورج اور دوسری میں چاند ہے۔ ایسی تصویریں مذہبی اہمیت رکھتی تھی۔ یہ قدیم مصر کی ،کائنات کے بارے میں تشریح تھی۔کرئہ ارض پر پہلی انسانی قوم جس نے نے کائنات کی ابتدا، ساخت اور نظام کے بارے میں علمی تحقیق کا بیڑہ اٹھایا وہ یونانی قوم تھی ۔یونانی قوم وہ ہے جو زمانہ جاہلیت سے ایک دم دھات کے زمانے میں داخل ہوگئی تھی یہ لوگ تجارت کرتے اور سمندروں کا سفر کرتے تھے اس لئے دوسری تہذیبوں کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور انہوں نے سوالات اٹھائے کہ کائنات کیا ہے۔یونانی سائنسدان دمقراط نے آج سے سے دو ہزار سال پہلے دنیا کو ایٹم سے روشناس کروایا۔ اس کے افکار جدید تحقیقات سے اس قدر قریب ہیں کہ اس سے دمقراط کی قوت فکر کا اندازہ ہوتا ہے ایسے زمانے میں جب مشاہدے اور تجربے کا کچھ سازوسامان نہ تھا اس نے ایٹم کا وجود دریافت کیا تھا۔ دمقراط کے زمانے میں بقراط اورسقراط جیسے عظیم سائنسدان بھی پیدا ہوئے لیکن سقراط فلسفی تھا اور بقراط طبیب تھا۔15ارب سال پہلے کی کائنات جس میں ہم رہتے ہیں عدم سے وجود میں آئی۔ آگ اور ہوا کے ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں میں یہ پھٹ پڑی۔ بگ بینگ کے ساتھ ہی ہر شہہ وجود میں آگئی۔کن فیکون اگر ہم عام نگاہ سے دنیا کا نظارہ کریں تو اوپر آسمان نیچے زمین نظرآئے گی اور زمین اور آسمان کے درمیان پھیلی ہوئی دنیا ہے ہے جس میں رنگ رنگ کی مخلوقات ہیں انسان ہے اور ان کی روزمرہ کی زندگی ۔ انسان کی ہستی آٹومیٹک مشین کی طرح خود کار ہے لیکن انسانی رویے پابند ہیں کہ کیسے ان کو مہذب بنایا جاتا ہے زمانہ قدیم سے آج تک انسان نے مادی ترقی اور روحانی تنزلی کا سفر کیا ہے۔ہجرت ہی کو لے لیں، پہلے زمانے میں جب کسی کو ایک جگہ رہنا دشوار ہوتا تھا تو وہ سفر کا قصد کر لیتا تھا۔آج امیگریشن کے قوانین ہیں بہت سختی ہے۔ امیگرینٹس سے نفرت کی جاتی ہے۔ Detention سینٹر بھرے پڑے ہیں ساحلوں پر لاشیں پڑی ہیں۔ جائے تو غریب انسان کہاں جائے۔انسان کی حالت یہ ہے کہ ابھی ظاہر کی حقیقت کوجان نہیں پایا ۔ہزاروں برسوں سے زمین پر رہ رہا ہے۔ پہلے کتر بیونت کے لیے پتھروں کو تیز کرکےاستعمال کرتا تھا تو آج مشینیں ہیں ۔ جانوروں کی کھالوں کا لباس پہنتا تھا تو آج جدید انداز کے لباس ہیں لیکن فطرت وہی کے نئے کپڑوں پر پیوند لگا دیے برائٹ کلرز کو فیڈ کرکے پرانا تاثر دے کر پہننا فیشن ہے عام انسان کی زندگی ایسی ہی ہے لیکن آفرین سائنس دانوں پر اور تحقیق کرنے والوں پر جن کی زندگی کائنات کو سمجھنے میں بسر ہو رہی ہے ستارے، سیارے اور زندگی کی کھوج، سوال در سوال،نہ ختم ہونے والا علم کا سفر، زمین کے اندر گہرائی میں ہے عجیب و غریب blobs ہیں اور زمین کے اندر ماؤنٹ ایورسٹ جیسے اونچے پہاڑ بھی موجود ہیں۔ زمین کے interior کو براہ راست جاننا نہیں جا سکتا۔ حد تو یہ ہے کہ بہترین سائنٹیفک نقشہ بھی بچوں کی ٹیکس بک پر ارتھ کے بیرونی اور اندرونی حصہ کی جو تصویر کشی کرتا ہے ، اس سے بہتر نہیں ہوتا ۔لیکن حال ہی میں زلزلے کی لہروں سے اندرونی حصے کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے ڈاکٹرز الٹراساؤنڈ سے مریض کے اندر دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح زلزلہ کی لہروں سے زمین کے اندرونی حصےکو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔زمین یعنی ارتھ کا اندرونی حصہ پیاز کے چھلکوں کی طرح سے ہے ہر حصہ کی اپنی ساخت نوعیت اور کہانی ہے۔حال ہی میں ریسرچرز کے مطابق 410میل کے لیول پر زمین کے اندر پہاڑیاں ہیں 600میل تک آگے چلے جائیں تو چٹانیں ہیں جو کہ سورج کی سطح سے بھی زیادہ گرم ہے۔ زمین کے بارے میں بے شمار سوالات ہے جن کے جوابات نامعلوم ہیں۔زمین کی گہرائی اور آسمان کی وسعتیں انسان کیوں ناپتا رہتا ہے سائنسدانوں کے نزدیک اس تحقیق سے صرف کائنات کی ابتداء کے بارے میں جاننا مقصود ہے یہ عجیب و غریب کائنات انسان دوست کیسے ہوگئی۔
تازہ ترین