کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پیپلز پارٹی،مسلم لیگ نون کے لیڈر جیل میں ہیں اور ان کی تمام تر سرگرمیاں ان کے گرد گھوم رہی ہیں جبکہ میرا مسئلہ عام آدمی کا مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ یہی ہے کہ موجودہ حکومت کے اقدامات نے عام آدمی کا جینا مشکل کر دیا ہے ہم نے فیصلہ کیا عام آدمی کے ترجمان بن کر سیاست کریں گے،مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی معاشی پالیسیوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا موجودہ حکومت بھی ایک لحاظ سے پیپلز پارٹی کا نیا چہرہ ہے، ہمارا ملکی نظام اگر تحریک انصاف کو سپورٹ نہ کرتا تو یہ کبھی کامیاب نہ ہوتے جس گملے کی پیداور پرانی پارٹیاں ہیں موجودہ حکومت بھی اسی کی پیداوار ہے عمران خان کو تمام تر اختیار کے ساتھ مرکز میں حکومت مل گئی اور وہ ڈیلور نہیں کر سکے بی آر ٹی کا انہیں مشورہ دیا تھا کہ مناسب منصوبہ نہیں،نیب نے اتنی ریکوری نہیں کی جتنے اس پر پیسے خرچ ہوجاتے ہیں،سینٹ کے اندر تبدیلی سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے صادق سنجرانی ایک اچھے آدمی ہیں حاصل بزنجو کے نظریات سے اختلاف ضرور ہے لیکن وہ بھی ایک اچھے آدمی ہیں،رانا ثنا اللہ پر جو الزام ہے اس کو ذہن قبول نہیں کرتا راناثنا اللہ کے واقعے کے بعد اپنے ڈرائیور کو کہہ رکھا ہے گاڑی اکیلی مت چھوڑنا، ویڈیو اسکینڈل کے جواب میں کہا کہ عدالتی نظام پر بڑا دھبا لگا ہے ضروری ہے اس سوال کا جواب دیا جائے اگر عدلیہ یہ کام نہیں کرتی تو لوگوں کا اعتماد عدلیہ سے اٹھ جائے گا جوڈیشل کمیشن بنایا جائے مریم نواز اور جج ارشد ملک کو سنا جائے اور قوم کے بتایا جائے کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔ پہلے یہ ثابت ہوجائے کہ جج کے بارے میں الزام صحیح ہیں یا نہیں ہیں اگر جج جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو اس کے فیصلے مشکوک ہوجاتے ہیں ان کے فیصلوں کو دوبارہ دیکھنا پڑے گا جسٹس کھوسہ نے خود کہا تھا کہ اگر احتساب صحیح معنوں میں ہوا تو اسمبلی میں بہت کم لوگ رہ جائیں گے اور عمران خان پر بھی بہت سے سوالات ہیں ان کی بہن کے حوالے سے ان کی پارٹی کے حوالے سے پاناما لیکس کی پٹیشن جمع کی تھی اس کیس میں انہیں سزا نہیں ہوئی اس دبئی کی کسی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر سزا ہوئی ہے ۔ پاناما لیکس میں جو 436 افراد ہیں وہ اسی طرح موجود ہیں وہ حکومت میں بھی ہیں اپوزیشن میں بھی ہیں بیوروکریٹس ، ججز سب ہیں۔ نیب کے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے یہ ادارہ بذات خود بھی قابل احتساب ہے۔ نیب کے چیئرمین کا انتخاب وزیراعظم اور اپوزیشن کو نہیں کرنا چاہیے تھا ان کا انتخاب چیف جسٹس آف پاکستان اور چاروں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یہ چھ آدمی مل کر نیب کے چیئرمین کی تقرری کرتے تاکہ ہر صورت میں غیر جانبدار آدمی ہوں ۔ جس احتساب کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں وہ اب تک شروع ہی نہیں ہوا ہے۔ایک ہی ٹیم ہے جو پالیساں بناتی ہے اور ہر حکومت اس کو فالو کرتی ہے لیکن اس حکومت نے نالائقی یہ کی کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر اسد عمر کو تبدیل کیا اسٹیٹ بینک کے گورنر کو تبدیل کیا حماد اظہر کو مینسٹر بنایا اور آئی ایم ایف کے ایجنٹ حفیظ شیخ کے کہنے پر بدل دیا۔