• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں مالی سال کے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات اور دستاویزات کی شرائط کے خلاف ہفتے کے روز پاکستان کی تاجر تنظیموں کی کال پر ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی جبکہ تاجروں کے کچھ گروپوں نے اِس ہڑتال سے اظہارِ لاتعلقی کیا اور کچھ شہروں میں بازار جزوی طور پر کھلے رہے۔ تاجر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بہت زیادہ دستاویزات کی فراہمی اور ٹیکسوں کی ظالمانہ شرائط جیسے حکومتی اقدامات کی وجہ سے وہ شٹر ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہڑتال کی وجہ سے صوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔ اِس موقع پر تاجر تنظیموں کے رہنمائوں کا در پیش خدشات کے حوالے سے کہنا تھا کہ نئے ضوابط کے تحت تاجروں کو تین طرح کے گوشوارے جمع کروانا ہوں گے۔ سالانہ بنیادوں پر انکم ٹیکس ریٹرن، ششماہی بنیادوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کا ریٹرن اور ہر مہینے سیلز ٹیکس کا ریٹرن جمع کروانا ہوگا۔ اِس مقصد کیلئے الگ سے اکاؤنٹنٹس، عملہ رکھنا پڑے گا پھر یہ ٹیکس وکلا کے ذریعے بھاری فیسیں ادا کر کے جمع کروانا ہوں گے اور اس میں کوئی غلطی یا کوتاہی ہوئی تو سخت جرمانے اور ایک سال تک کی قید بھی ہو سکتی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہڑتال حکومت کے ٹیکسوں کے خلاف تاجروں کا ریفرنڈم ہے، تاجر تنظیمیں بجٹ مسترد کرتی ہیں اور یہ کہ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے تاجروں سے مذاکرات کریں۔ دوسری جانب چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ تاجروں کی طرف سے ہڑتال بلا جواز ہے۔ ہم تاجروں کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اِن مسائل کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔ اِس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تاجروں کی ہڑتال سے نہ صرف تاجر برادری بلکہ ملکی معیشت کا نقصان ہوگا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت اور تاجر برادری باہمی افہام و تفہیم سے مسائل کا قابلِ عمل حل تلاش کریں۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی ادائیگی کے عمل کا آسان بنانا بھی وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔

تازہ ترین