پاکستان کی فلمی صنعت کی ترقی میں فنِ موسیقی کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ اس فن سے وابستہ بڑے نام فلمی صنعت میں آئے اور انہوں نے ایسے سدا بہار سنگیت تخلیق کیے، جو امر ہوگئے۔ سُر و سنگیت سے تعلق رکھنے والے صاحبِ طرز موسیقار خواجہ خورشید انور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ مئی 1912ء کو میانوالی صوبہ پنجاب میں پیدا ہونے والے یہ نامور موسیقار کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد بیرسٹر خواجہ فیروزالدین کو موسیقی سے بہت لگائو تھا۔ گھر میں آئے دِن موسیقی کی محافل منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ خواجہ خورشید کم عمری میں ہی ان محافل میں دل چسپی لینے لگے۔ عمر کے ساتھ ساتھ فن موسیقی میں ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایک صاحب طرز موسیقار کے طور پر اپنی شناخت کروا چکے تھے۔ 1935ء میں انہوں نے ایم اے فلسفے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم رہے۔ ان کے نانا خان بہادر ڈاکٹر عطا محمد معروف سول سرجن تھے ، جو شاعر مشرق علامہ اقبال کے سسر بھی تھے۔ اس رشتے سے علامہ اقبال، خواجہ خورشید کے خالو تھے۔ خواجہ خورشید نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ہدایت کار اے آر کاردار کی پنجابی فلم ’’کڑمائی‘‘ سے کیا۔ یہ فلم 1941ء میں ریلیز ہوئی۔ انہوں نے فنِ موسیقی کی تعلیم کلاسیکی موسیقی کے ماہر استاد توکل حسین سے حاصل کی۔ بہ طور موسیقار پہلی فلم ’’کڑمائی‘‘ کی کام یابی نے انہیں اس وقت کا صفِ اول کا موسیقار تسلیم کروایا۔ متحدہ ہندوستان میں انہوں نے ’’اشارہ‘‘ ’’پرکھ‘‘ ’’یتیم‘‘ ’’پگڈنڈی‘‘ ’’آج اور کل‘‘ ’’پروانہ‘‘ ’’سنگھار‘‘ ’’خاموش سپاہی‘‘ اور ’’نشانہ‘‘ نامی فلموں میں موسیقی دی۔ پاکستان بننے کے بعد 1950ء میں وہ لاہور آگئے۔ فلمی صنعت کا قیام عمل میں آچکا تھا، یہاں انہوں نے سب سے پہلے فلم ’’ستمگر‘‘ کے نغمات ریکارڈ کروائے، یہ فلم نامکمل رہی۔
1956ء میں انہوں نے سلطان جیلانی کے ساتھ ایک رومانی، نغماتی فلم ’’انتظار‘‘ پروڈیوس کی۔ فلم کی کہانی، منظرنامہ اور موسیقی کے طور پر ان کا نام آیا۔ ’’انتظار‘‘ کے نغمات نے پاک و ہند میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ نورجہاں کی آواز اور خواجہ صاحب کی موسیقی نے ہر طرف دُھوم مچا دی۔ اس فلم کی سُریلی و مدھر دُھنیں تخلیق کرنے پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس طرح وہ صدارتی ایوارڈ یافتہ پہلے موسیقار قرار پائے۔ اسی سال انہوں نے ہدایت کار دائود چاند کی فلم ’’مرزا صاحباں‘‘ کی موسیقی دی۔ 1958ء بہ طور فلم ساز انہوں نے فلم ’’زہرعشق‘‘ بنائی، جس کی کہانی اور منظرنامہ بھی ان کا تحریر کردہ تھا۔ اس فلم کی کہانی نفسیاتی موضوع پر تھی۔ اسے پہلی نفسیاتی فلم کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ مسرت نذیر، حبیب اور یاسمین اس فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے تقریباً تمام گانے سپرہٹ تھے۔ خواجہ صاحب نے اس فلم کی موسیقی میں بین کے سازوں کو بڑی خوب صورتی سے استعمال کیا تھا۔ اس فلم کی معیاری اور بہترین موسیقی دینے پر انہیں سال کے بہترین موسیقار کا ’’نگار‘‘ ایوارڈ دیا گیا۔ 1956ء میں فلم ’’جھومر‘‘ کے گیت کراچی سے دہلی تک گلی گلی میں گونجے لگے۔ اس فلم میں انہوں نے ایسے گیت تخلیق کیے جن کی دل کش تازگی اور شیرینی آج بھی قائم ہے۔ یہ ان کی ذاتی فلم تھی، جس کی کہانی اور خوب صورت منظرنامہ بھی ان کے قلم سے تحریر کردہ تھا۔ مشرق و مغرب کی تہذیب کے تناظر میں لکھی ہوئی اس فلم کی کہانی بہت ہی اثرانگیز تھی۔ مسرت نذیر، سدھیر، لیلیٰ، علائوالدین اور رخشی نے اس فلم میں نمایاں کردار ادا کیے تھے۔
اسی سال ان کی مسحورکن موسیقی سے آراستہ فلم ’’کوئل‘‘ ریلیز ہوئی، جس کا شمار پاکستان کی چند سپرہٹ کلاسیکل و نغماتی فلموں میں ہوتا ہے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز ’’کوئل‘‘ کی طرح پورے عالم میں چہکنے لگی اور آج تک چہک رہی ہے۔ گائیکی اور اداکاری کے حوالے سے یہ نورجہاں بیگم کی ایک لازوال فلم ہے۔ اسلم پرویز، نیلو، علائو الدین، نذر، ساحرہ کے نام بھی اس فلم کی کاسٹ کا نمایاں حصہ ہیں۔ ’’کوئل‘‘ کے بعد ان کی موسیقی سے آراستہ فلموں میں ’’ایاز‘‘ ’’گھونگھٹ‘‘ ’’چنگاری‘‘ ’’حویلی‘‘ ’’سرحد‘‘ ’’ہمراز‘‘ ’’گڈو‘‘ (پنجابی) ’’ہیررانجھا‘‘ (پنجابی) ’’پرائی آگ‘‘ ’’سلام و محبت‘‘ ’’شیریں فرہاد‘‘ ’’حیدر علی‘‘ ’’مرزا جٹ‘‘ (پنجابی) کے نام شامل ہیں۔ خواجہ صاحب نے 11؍ہندوستانی فلموں کے علاوہ 18؍پاکستانی فلموں میں موسیقی دی۔ 1970ء میں ریلیز ہونے والی فلم ساز و اداکار اعجاز کی شہرئہ آفاق فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کی اعلیٰ موسیقی دینے پر انہیں بہترین موسیقار کا ’’نگار‘‘ ایوارڈ دیا گیا۔ اس فلم کے سُریلے اور میٹھے سروں کے جادوئی اثر نے ایک عالم کو سکون قلب بخشا۔ برصغیر میں اس لوک کہانی کو کئی بار فلمایا جاچکا ہے۔ خواجہ خورشید انور کی موسیقی، اعجاز اور فردوس کی عمدہ اداکاری نے اسے شوبزنس کی ایک شاہ کار فلم بنا دی۔ اس فلم کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔
مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور 30؍اکتوبر 1984ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔وہ ایک ایسے موسیقار تھے، جن کا ہر گیت اور سُر سننے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔ بے شمار ایسے گیت انہوں نے تخلیق کیے، جو آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے سُریلےگیتوں کو ہر دور میں گایا جائے گا۔ یہ ایک سچے فن کار کے فن کی آواز ہے ،جو ہم سے اور دنیا والوں سے کہہ رہی ہے ’’گائے گی دنیا گیت میرے‘‘۔