عبداللہ کادوانی اور اسد قریشی کے سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ کا ایک اور میگا ڈرامہ سیریل ’’ڈر خدا سے‘‘ پاکستان کے سب سے مقبول انٹرٹینمنٹ چینل ’’جیو ٹی وی‘‘ سے پیش کیا جارہا ہے۔ ورسٹائل اداکار عمران عباس اور ثنا جاوید اس سیریل میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ عمران عباس کی پہلی بار منفی اداکاری نے بھی اس کہانی میں تڑکہ لگا دیا ہے جبکہ ثنا جاوید کی معصومیت بھی ناظرین کو متاثر کر رہی ہے۔ عورت کی مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر اُن کی زندگی اجیرن بنا دینے والے سفاک مردوں کی کربناک کہانی ’’ڈر خدا سے‘‘ ثروت نذیر نے قلم بند کی ہے۔ معروف ہدایتکار انجم شہزاد نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ ٹائٹل گیت معروف گلوکار و کمپوزر ساحر علی بگا نے گایا ہے۔ اس گیت کو اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ ڈرامے کی کہانی نے ناظرین میں تجسس کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیریل کی کہانی نے دفاتر میں کام کرنے والی مجبور خواتین کی خوف کی زنجیروں کو بھی توڑنا شروع کردیا ہے۔ قوی خان، کرن حق، ساجد سید، علی انصاری، نمرہ شاہد، فاریہ شیخ، مریم مرزا سمیت کئی اداکار اس سیریل میں اپنی جاندار اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں، سیریل میں خواتین کوہراساں کئے جانے کے خوف اور درد کو اُجاگر کیا ہے۔ ہم نے سیریل کے مرکزی کردار عمران عباس سے ہلکی پھلکی گفتگو کی۔ عمران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ، ان ڈرامے آن ائیر ہونے سے پہلے ہی مقبولیت کی سند حاصل کرلتے ہیں۔ اس بارے میں ان کے خیالات بھی پڑھ لیں۔ عمران کہتے ہیں، یہ مجھ سے زیادہ ناظرین بتاسکتے ہیں۔ مجھے تو صرف اتنا علم ہے جس ڈرامے میں کام کیا، وہ مقبول ہوا۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ سیریل ’’ڈر خدا سے‘‘ میں میرا منفی کردار اسکرین پر آنے سے قبل ہی مشہور ہوگیا۔
’میرا نام یوسف‘، ’الوداع‘، ’خدا اور محبت‘۔۔ جیسے کامیاب ٹی وی سیریل سے اپنی ایک علیحدہ پہچان بنانے والے اداکار عمران عباس نے 15 اکتوبر 1982کو لاہور کے ایک مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی۔ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں ، ایک بہن کا انتقال ہوچکا ہے، والد سول انجینئر (ریٹائرڈ)ہیں۔ والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ اہل خانہ اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ عمران عباس نے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے آرکیٹیکچر کیا۔ لیکن اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز لالی ووڈ فلموں سے کیا، بعدازاں پاکستان ٹیلی ویژن پر ڈراموں کے ساتھ مختلف پروگرام کیے، جن سے مشہور ہوئے۔ وہ سماجی خدمات میں بھی آگے آگے رہتے ہیں۔ آج کل بہت مصروف ہیں کبھی پاکستان اور کبھی پاکستان سے باہر انکی شوٹنگز ہورہی ہیں، بقول عمران ’’میرا اداکاری کے شعبے میں آنا اتفاق ہے، اسلام آباد سینٹر سے چائلڈ اسٹار کے طور پر کام کیا۔ گرچہ اداکاری کبھی میرا شوق اور جنون نہیں تھا، لیکن جب اِس شعبے میں آ یا تو سوچا کیوں نا اِسی سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔ سلطانہ صدیقی نے متعارف کرایا اور اپنے سیریل ’’جنت‘‘ میں مرکزی کردار دیا۔ ساتھ ایک اور سیریل میں کام کیا۔ ’’شاید کے بہار آئے‘‘۔ یہ دونوں سیریل ایک ساتھ ہی شروع ہوئے تھے۔ پہلا سیریل حسینہ معین نے لکھا تھا،رعنا شیخ نے اُسے ڈائریکٹ کیا تھا‘‘۔ عمران عباس کا کہنا ہے کہ میں جو بننا چاہتا تھا وہ بن گیا ہوں، آرکیٹیکٹ بننا چاہتا تھا وہ بنا اور اس کی پریکٹس بھی کی۔ میرے دِل میں کبھی کوئی حسرت نہیں رہی کہ میں فلاں کام کرنا چاہتا تھا لیکن نہیں کرسکا۔ زندگی میں جو بھی کرنا چاہا میں نے کیا ہے۔ یہ زندگی بہت مختصر ہے اس لئے ہر جائز شوق کو پورا کرنا چاہئے اور اِسی یقین کو لے کر آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔ بہرحال زندگی میں جو کرسکتا تھا وہ کیا اور جو دِل چاہتا ہے وہی کرتا ہوں۔
’’ڈر خدا سے‘‘ میں اپنے منفی کردار کے حوالے سے عمران عباس کا کہنا ہے کہ، لوگوں نے ابھی تک مجھے ہیرو اور پیار کرنے والے کرداروں میں ہی دیکھا ہے، لیکن اس ڈرامے میں منفی کردار مجھے ایک نیا روپ دے گا اور میں اپنے روایتی کرداروں سے باہر نکل سکوں گا، اس سیریل میں ناظرین مجھے بالکل ہی منفرد انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ بتا دوں ’’خدا اور محبت‘‘ واحد سیریل ہے جو میرے دِل سے بہت زیادہ قریب ہے، اس سیریل نے مجھے ایک پہچان دی تھی۔ یہ پاکستانی ڈرامے کی تاریخ کا منفرد ڈرامہ تھا، جسے بہت پذیرائی ملی۔ ایک وقت ایسا آیا تھا جب میں نے سوچا کہ میں ٹی وی چھوڑ دوں لیکن دِل میں یہ خیال ضرور تھا کہ جب بھی اس ڈرامے یعنی ’’خدا اور محبت‘‘ کا سیزن ٹو بنے گا تو اس میں یقینا کام کروں گا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس ڈرامے کا سیزن ٹو بنا اور مجھے اِس میں شریک بھی کیا گیا۔
کیا پاکستان میں معیاری ڈرامے بن رہے ہیں؟ اس سوال پر عمران عباس گویا ہوئے کہ، پاکستان میں بالکل معیاری ڈرامے بن رہے ہیں، آج بھی پاکستانی ڈراموں کا معیار بہت اچھا ہے، تاہم اگر آج کے ڈراموں کا موازنہ پرانے ڈراموں سے کیا جائے تو تکنیکی لحاظ سے ہم بہت آگے آچکے ہیں۔ ڈراموں کا کونٹینٹ بھی بہتر ہوگیا ہے، میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہا کہ برے ڈرامے نہیں بن رہے۔ اچھا برا کام تو ہر جگہ ہوتا ہے، کہیں بھی 100 فیصد چیزیں اچھی نہیں ہوتیں۔ لیکن پاکستانی ڈراموں نے ہمیں پہچان دی ہے۔ بھارت میں ایک چینل ہے ’’زندگی‘‘ جب اُسے شروع کیا گیا تو مجھے خاص طور پر بھارت مدعو کیا گیا تھا، اُس چینل پر پاکستانی ڈرامے دکھائے جاتے تھے اور پھر ہندوستان کے گھر گھر میں پاکستانی ڈراموں کی آواز گونجتی تھی۔ اب تو حالات خراب ہیں لیکن اِن ڈراموں کی وجہ سے ہمیں بھارت سمیت دُنیا بھر میں پہچانا گیا۔ ڈرامہ انڈسٹری کی بہتری کیلئے پہلے ہمیں اپنے انفرا اسٹرکچر کو ٹھیک کرنا ہوگا، ابھی تک ہم یہی سمجھتے ہیں کہ بس، ڈرامہ تو وہی اچھا ہوتا ہے جو لوگوں کو پسند آ جائے، پروڈکشن ہائوس بھی یہی سمجھتا ہے کہ جو ڈراما فروخت ہوگیا بس وہی اچھا ہے لیکن مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری انڈسٹری کا انفرا اسٹرکچر ابھی تک بہت خراب ہے۔ یہاں لوگوں کے معاوضے روک لئے جاتے ہیں، انہیں اس طریقے سے ٹریٹ نہیں کیا جاتا جس طرح کرنا چاہئے۔ جب اس فیلڈ میں داخل ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری انڈسٹری کس حد تک غیر منظم ہے لیکن کام چل رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کونٹینٹ بہت اچھا سامنے لارہے ہیں، بہ حیثیت اداکار ہمیں یہ سہولت ضرور ہے کہ اگر پیسے نہیں ملتے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہم آپ کا کام مکمل نہیں کریں گے، لیکن میں اُن کی بات کررہا ہوں جو کیمرے کے پیچھے بہت محنت سے کام کرتے ہیں، یہاں تو بہت سے اداکار بھی ہیں جن کے معاوضے روک لئے جاتے ہیں ، اگر ہمیں ڈرامہ انڈسٹری میں بہتری لانی ہے تو اس کو منظم کرنے کے ساتھ تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ پروڈکشن ہائوسز اور چینلز کو بھی سب کا خیال کرنا ہوگا۔ ایکٹنگ اپنی جگہ محنت طلب کام ہے، وہاں آپ کو صرف اچھا نظر آنا ہی نہیں ہوتا بلکہ جان دار اداکاری بھی کرنا ہوتی ہے، اس کے علاوہ اپنی شخصیت میں کئی کرداروں کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ اداکاری کے حوالے سے میں اکثر یہی کہتا ہوں کہ اداکار وہی ہوتا ہے جو آپ ہیں وہ نہ دکھائی دیں، جبکہ ماڈلنگ میں جو آپ کی شخصیت ہے اُسی کو پالش کرکے دکھانا ہوتا ہے، یہی بنیادی فرق ہے ماڈلنگ اور ایکٹنگ میں۔ لیکن دونوں ہی اپنی جگہ بہت مشکل کام ہیں۔ عمران عباس نے فلموں کے حوالے سے کہا، مجھے فلموں میں کام کرکے بہت اچھا لگا، بڑی اسکرین کا تجربہ بہت شاندار ہوتا ہے۔ میں ابھی پاکستانی فلمیں کررہا ہوں، البتہ بھارت سے چوں کہ فی الحال ہمارے رابطے منقطع ہیں لیکن ماضی میں بھی مجھے بھارت سے فلموں کی آفرز تھیں کام بھی کیا اور آج بھی آفرز ہیں۔بھارتی فلم کریچرز تھری ڈی 2014 میں بھارتی اداکار رہ بپاشا باسو کے ساتھ کام کیا ، تو بھارتی فلم سازوں کی نظریں مجھ پر ٹھہر گئیں، دوسری فلم جاں نثار کی جو 2015 میں ریلیز ہوئی، ایک اور فلم ’’اے دل ہے مشکل‘‘ بھارت میں ریلیز ہوگئی ہے۔ اس فلم میں انوشکا شرما کے بھائی کا کردارکیا ہے، جب کہ فواد خان نے ڈی جے کا کردار کیا ہے ۔ واضح رہے کہ فلم ’’اے دل ہے مشکل ‘‘ میں ایشوریا رائے انوشکا شرما اور رنبیر کپور مرکزی کردار ادا کررہے ہیں ۔ دراصل فلموں میں کام کرنے کا الگ ہی نشہ اور الگ ہی مزہ ہے۔ فلموں کا مقابلہ ہم ڈراموں سے نہیں کرسکتے۔ فلم ایسا میڈیم ہے جو آرکائیومیں چلا جاتا ہے اور کئی دھائیوں بعد بھی لوگوں کو یاد رہتا ہے، فلموں سے آپ کو نیا اعتماد ملتا ہے۔
اپنے پسندیدہ ڈراموں کے حوالے سے عمران عباس نے کہا، اشفاق احمد صاحب کے 100 افسانے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں جو میں آج بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر دیکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ ’’اَن کہی، دھوپ کنارے، تنہائیاں‘‘ میرے پسندیدہ ڈرامے ہیں۔ اپنے کیریئر کے حوالے سے عمران کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ مطمئن ہوں اوپر والے نے مجھے بہت زیادہ نوازا ہے۔ میں آج جس مقام پر ہوں شاید یہ بہت سے لوگوں کا صرف خواب ہوتا ہے لیکن میں نے یہ خواب کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ میں اپنے آپ کو بہت اچھا اداکار نہیں سمجھتا، میں تو ایک عام سا اداکار ہوں، خود کو زیادہ خوش شکل بھی نہیں سمجھتا، کیونکہ مجھ سے بھی زیادہ خوش شکل لوگ اس انڈسٹری میں آئے اور چلے گئے۔ اگر لوگ مجھے ہینڈسم اور گڈلوکنگ سمجھتے ہیں تو یہ اُن کا حسن نظر ہے لیکن میں خود کو کچھ بھی نہیں سمجھتا۔ بہرحال آج میں جہاں ہوں وہاں بہت مطمئن ہوں۔
کیا شوبز انڈسٹری میں کیریر بنایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران عباس کا کہنا ہے کہ، بالکل شوبز انڈسٹری اس قابل ہے کہ اسے کیریئر بنایا جاسکے، لیکن کیریئر بنانے سے قبل یہ ضرور سوچ لیا جائے کہ یہ غیر متوقع جگہ ہے، کیونکہ یہاں آپ کی اداکاری، شکل و صورت کے علاوہ جو بہت ضروری چیز ہے وہ ہے آپ کی قسمت، اس لئے یہ سوچ کر آئیں کہ اگر آپ میں اداکاری کے جراثیم ہیں پھر بھی ضروری نہیں کہ آپ بہت بڑے اداکار بن جائیں گے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں پتہ نہیں ہوتا کہ آج آپ یہاں ہیں تو کل کہاں ہوں گے،،