• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جج ویڈیو اسکینڈل عدالت دیکھے گی، دھول چھٹنا چاہیے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جج ارشد ملک سے متعلق مبینہ ویڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، جو دھول اٹھ رہی ہے اسے چھٹنا چاہیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جج ارشد ملک کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت درخواست گزار اکرام چوہدری نے کہا کہ عوام کا عدلیہ پر احترام مجروح ہوا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں ہدایت دینے کی ضرورت نہیں کہ تحقیقات کیسے ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں غیر معمولی باتیں بھی ہیں، سوال یہ ہے کہ تحقیقات کس طرح سے کی جائیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کہا گیا کہ ویڈیو کے معاملے پر از خود نوٹس لیں، لوگوں کے کہنے پر کوئی کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے؟

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ازخود نوٹس کسی کے مطالبے پر لیں تو یہ از خود نوٹس تو نہ ہوا، جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، جو دھول بھی اٹھ رہی ہے اسے چھٹنا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اصل معاملہ عدلیہ کی ساکھ ہے، لوگوں کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہوگا تو انصاف کیسے ہوگا، بنیادی مسئلہ ہی عدلیہ کے اعتماد کا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ معاملہ پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، اگر سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ہمارے سامنے مسئلہ اور ہے کہ یہ معاملہ کس کو اور کب دیکھنا چاہیے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا اور ان سے تجاویز طلب کر لیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کے موقع پر سیکیورٹی کے خصوصی اقدامات کیے گئے تھے، عدالت کے احاطے اور ریڈ زون میں ایک ہزار اہلکار تعینات کیے گئے، جبکہ کمرۂ عدالت میں خصوصی پاسز کے ذریعے داخلے کی اجازت دی گئی جو ایس پی سیکیورٹی سے حاصل کیے جا سکتے تھے۔

خصوصی پاسز کے حامل افراد کو بھی سیکیورٹی عملے نے تلاشی کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں داخلے کی اجازت دی، کمرۂ عدالت میں موبائل فون اور کیمرہ لے جانے پر بھی پابندی تھی۔

ویڈیو اسکینڈل کیس کیا ہے؟

پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت نے رواں ماہ (6 جولائی 2019ء کو) پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا تھا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کے خلاف سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا تھا۔

اس ویڈیو کی بنیاد پر نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

جج ارشد ملک نے مسلم لیگ نون کی جانب سے ویڈیو جاری ہونے کے اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ویڈیو کو جعلی، فرضی اور جھوٹی قرار دیا تھا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے پر مؤقف اختیار کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔

جج ارشد ملک نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد جسٹس عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی تھی۔

12 جولائی 2019ء کو قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وزراتِ قانون نے ان کو مزید کام کرنے سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کر دی تھیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیانِ حلفی بھی منظرِ عام پر آیا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تھی۔

انہوں نے اپنے بیانِ حلفی میں یہ بھی کہا کہ وہ مئی 2019ء کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے تھے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے ویڈیو کا حوالہ دے کر انہیں بلیک میل کیا تھا۔

بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے یہ بھی بتایا کہ ان پر حسین نواز سے ملاقات کرنے کے لیے زور دیا گیا، جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، جبکہ حسین نواز کی جانب سے انہیں 50 کروڑ روپے کی رشوت، پورے خاندان کو یو کے، کینیڈا یا اپنی مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے، بچوں کے لیے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی پیشکش کی گئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کے سلسلے میں درخواست دائر کی گئی تھی جس پر آج (16 جولائی کو )سماعت ہوئی، اس سماعت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطاء بندیال پر مشتمل بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ جج ارشد ملک اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس کی سماعت کر رہے تھے۔

جج ارشد ملک نے ہی اس سے قبل مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کیا تھا۔

تازہ ترین