اردو ناول نگاری میں تاریخ کے موضوع پر اردو کے جن ادیبوں نے قلم اٹھایا، ان میں عبدالحلیم شرر سے لے کر نسیم حجازی تک بہت سارے ادیبوں کے نام آتے ہیں، انہوں نے تاریخ کو ناول کی کہانیوں اور کرداروں میں محفوظ کیا۔ پاکستان بننے کے بعد تاریخی ناول لکھنے والوں میں جس ادیب کو سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت ملی، وہ نسیم حجازی ہیں۔ انہوں نے تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کر کے لکھا، پہلے حصے میں اسلامی تاریخ کے عروج و زوال کو موضوع بنایا اور اس تناظر میں کئی مشہور ناول لکھے۔ دوسرے حصے میں اسلامی تاریخ کے ہسپانوی دور پر ناول لکھے جبکہ تیسرے اور آخری دور میں برصغیر میں انگریزوں کی حکومت اور قیام پاکستان کو ناولوں کے ذریعے قلم بند کیا۔ نسیم حجازی کے دو ناولوں پر پاکستان ٹیلی وژن نے ڈرامے بھی بنائے گئے، جن کے نام آخری چٹان اور شاہین ہیں، ان ڈراموں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ پروڈیوسر بھی تھے جبکہ بطور کہانی نویس اور اسکرپٹ رائٹر، انہوں نے دو پاکستانی فلمیں بھی لکھیں، جن کے نام ٹیپو سلطان اور غرناطہ تھے، لیکن ان کا واحد ناول’’خاک اور خون‘‘ تھا، جس پرفلم بنائی گئی۔ اس فلم میں ناول کی کہانی اور کرداروں میں کوئی تبدیلی کیے بغیر ہی ناول کے نام سے اس کو فلم کے اسکرپٹ میں ڈھالا گیا۔
’’خاک اور خون‘‘ کا مرکزی خیال قیام پاکستان تھا، اس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے مسلمانوں نے کن مسائل کا سامنا کیا اور کیسی تکالیف برداشت کیں، یہ ناول اسی درد کا بیان ہے۔ ناول نگار نے اس منظرنامے میں خاص طور پر دوران ہجرت مسلمان خواتین کن مصائب سے دوچار ہوئیں، اس پہلو کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ پاکستان تک پہنچنے کے لیے، راستے میں کس طرح مسلمانوں کے قافلے لٹے، عزت دار بیبیوں کی جانیں گئیں، معصوم بچے اور بوڑھے شہید ہوئے، اس کرب کی داستان لیے یہ ناول قارئین کے دلوں سے ہمیشہ قریب رہا اور اس موضوع پر لکھے جانے والے ادب میں بھی پسندیدہ رہا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس ناول کے ذریعے نسیم حجازی نے اپنی ذاتی زندگی اور تجربات کو کہانی کی صورت میں پیش کیا، جن تکالیف کو وہ خود جھیل کر پاکستان پہنچے تھے۔ 50 کی دہائی میں یہ ناول ’’خاک اورخون‘‘کے نام ہی سے پہلی مرتبہ شایع ہوا، آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ قیام پاکستان اور ہجرت کے تناظر میں مسلمانان ہند نے جس ظلم وستم کوبرداشت کیا، یہ ناول کہنے کو فکشن ہے، مگر ان تمام تلخ اور جان لیوا حقائق کی عکاسی کرتاہے۔ اس ناول پر’’خاک اور خون‘‘ کے نام سے ہی فلم بن کر 1979 میں ریلیز ہوئی ۔ اس وقت کے ثقافتی سرکاری ادارے ’’نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن۔نیف ڈیک‘‘ نے فلم سازی کے وسائل مہیا کیے تھے، یعنی کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلم کے شعبے میں حکومتی پروجیکٹ تھا، جس کی فلم سازی میں سرکار نے اپنا سرمایہ خرچ کیا، کیونکہ اس ناول کا پلاٹ متقاضی تھا کہ اس کے موضوع کی منظر کشی بڑے پیمانے پر کی جائے، اس کے لیے سرکاری وسائل بروئے کار لائے گئے، لیکن پاکستانی سینما کی تاریخ میں اس ناول پر ہونے والی سرکاری سرمایہ کاری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کثیر سرمائے سے بننی والی اس فلم کو باکس آفس پر بھی کوئی کامیابی نہ مل سکی اور یوں سرکاری سطح پر سینما کے لیے ہونے والی کوششوں کو گزند پہنچا۔ اس ناول پر بننے والی فلم کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے، جبکہ نمایاںفنکاروں میں محبوب عالم، عابد علی، نوین تاجک، شجاعت ہاشمی، سلیم ناصر، جمیل بسمل اور بدیع الزماں تھے۔ موسیقی نثار بزمی نے دی تھی اور جنہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا، ان میں گلوکار مہدی حسن، اخلاق احمد اور گلوکارہ نور جہاں شامل تھیں، جبکہ گیت نگار قتیل شفائی اور احمد راہی تھے۔ فلم بننے کے بعد تنازعات کا بھی شکار ہوئی، جس کی وجہ سے اس کی نمائش میں تاخیر ہوئی، لیکن جب اس کو فلم بینوں نے نمائش ہونے کے بعد دیکھا، تو اتنی پسندیدگی نہ دی، جس قدر مقبولیت ناول کے حصے میں آئی تھی۔ نسیم حجازی کے ناولوں کا رنگ بعد میں کئی نئے ناول نگاروں نے بھی اپنایا اور کامیابی حاصل کی۔ اس شہرت کے باوجود ایک ادبی طبقہ ایسا بھی رہا، جنہوں نے نسیم حجازی کے تاریخی ادب کو ایک محدود اور مخصوص طرز فکر سے جڑے ہونے کی وجہ سے جمود کا شکار بھی کہا، سوائے ان کے چند ایک ناولوں کے، دیگر ناولوں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اس صورتحال کے باوجود’’خاک اور خون‘‘ کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے، ناول پڑھنے والے قارئین کے تخیل کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور اگر کسی ادب پارے کو فلماتے وقت اس پہلو کا خیال نہ رکھا جائے، تو یہ تجربہ ناکام بھی ہوسکتا ہے، جس طرح اس ناول پر بننے والی فلم کے ساتھ ہوا۔ ناول کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ آج بھی اس کو پڑھنے والے موجود ہیں، کیونکہ یہ آج بھی فروخت ہو رہا ہے، جبکہ اس پر بننے والی فلم کو فلم بین بھول چکے ہیں، اس کا اب کوئی تذکرہ بھی نہیں ہے۔ ناول اور فلم کے مابین یہ بڑا نازک تعلق ہے، اگر کوئی فلم ساز اس باریکی کا خیال نہ رکھ پائے تو ایک مقبول ناول سے بھی ناکام فلم تشکیل ہوسکتی ہے۔