کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو پرویز مشرف کو روکنے کیلئے حکومت کے ساتھ فریق بننا چاہئے تھا، عدالتی فیصلے کے بعد پرویز مشرف کو روکنے کیلئے نیا مقدمہ قائم کرنا ضروری تھا، اگر حکومت نیا مقدمہ قائم کردیتی تو اسے ذاتی انتقام قرار دیاجاتا،پرویز مشرف کیخلاف مقدمات ابھی بھی قائم ہیں، سول ملٹری تعلقات کی بنیاد پرپرویز مشرف جیسے معاملات پر نہیں ہے، پاکستان کا ہر ادارہ آئینی حدود کے اندر رہ کر فرائض انجام دیتا ہے، میں نے اپنے بیان میں غلیل والے دہشتگردوں کو کہا تھا۔وہ جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سیکرٹری جنرل پیپلز پارٹی لطیف کھوسہ بھی شریک تھے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ پرویز مشرف کو باہر جانے سے روکنا حکومت کیلئے بہت آسان تھا،عدالت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دیا تھا، ای سی ایل میں نام رکھنے کا فیصلہ وفاقی حکومت یا ٹرائل کورٹ کو کرنا تھا، موجودہ حکومت سے زیادہ بے بس حکومت کبھی نہیں دیکھی، پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کو ریڈکارپٹ نہیں دیا تھا، ہم نے اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کروا کر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔پرویز رشید نےکہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر بھیجا تھا،ہمارے وزیروں نے کالی پٹیاں باندھ کر سابق صدر پرویز مشرف سے حلف لیا تھا، پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ قائم کرنے کی جرأت ن لیگ کی حکومت نے کی، پرویز مشرف کے خلاف مقدمات ختم نہیں ہوئے، پرویز مشرف کو سابق آرمی چیف ہونے کی وجہ سے جانے کی اجازت نہیں دی، پیپلز پارٹی کو پرویز مشرف کو روکنے کیلئے حکومت کے ساتھ فریق بننا چاہئے تھا، پیپلز پارٹی میڈیا پر لڑائی لڑتی ہے لیکن جہاں لڑنی تھی وہاں نہیں لڑی۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے، سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا ای سی ایل کے حوالے سے اپنی نوعیت کا واحد فیصلہ تھا، عدالت نے فیصلے میں کہا ہمارے حکمنامے پر عملدرآمد کروانے کیلئے کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے، اس پر خودبخود عملدرآمد ہوجائے گا۔ پرویز رشید کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے کے بعد پرویز مشرف کو پہلے سے جاری چھ مقدمات کی بنیاد پر باہر جانے سے نہیں روکا جاسکتا تھا، پرویز مشرف کو روکنے کیلئے حکومت کو ان پر نیا مقدمہ قائم کرنا تھا،اگر حکومت نیا مقدمہ قائم کردیتی تو اسے ذاتی انتقام قرار دیاجاتا۔انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں ایسے مقدمات لے کر نہیں جانا چاہتے جس سے ہماری توجہ عوامی مسائل سے ہٹ جائے، پرویز مشرف کیخلاف مقدمات ابھی بھی قائم ہیں، سول ملٹری تعلقات کی بنیاد پرویز مشرف جیسے معاملات پر نہیں ہے، پاکستان کا ہر ادارہ آئینی حدود کے اندر رہ کر فرائض انجام دیتا ہے، میں نے اپنے بیان میں غلیل والے دہشتگردوں کو کہا تھا۔ پرویز رشید نے کہا کہ پرویز مشرف کے جانے پر ذاتی طور پر کوئی خوش نہیں ہے، حکومت جب عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے تو پاکستانی عوام اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دیا تھا، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں واضح لکھا ہے کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں رکھنے کا فیصلہ وفاقی حکومت یا ٹرائل کورٹ کرے، پرویز مشرف کو باہر جانے سے روکنا حکومت کیلئے بہت آسان تھااس کیلئے حکومت کے پاس کافی مواد موجود تھا، پرویز مشرف کے خلاف سنگین ترین جرائم کے مقدمات چل رہے تھے ، غداری انتہائی سنگین اور واحد جرم ہے جو آئین کے اندر درج ہے، ن لیگی رہنما پرویز مشرف کیخلاف سخت تقاریر کرتے تھے، کچھ وزراء تو پرویز مشرف کے باہر جانے کی صورت میں سیاست چھوڑنے کی بات کرتے تھے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے تیس ناقابل ضمانت وارنٹ عدالتوں سے نکلے، موجودہ حکومت سے زیادہ بے بس حکومت کبھی نہیں دیکھی، حکومت پرویز مشرف کو عدالت تک لے جانے کیلئے اپنی فورس بھی استعمال نہیں کرپارہی تھی۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کو ریڈکارپٹ نہیں دیا تھا، پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کروا کر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا، پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر اس وقت کے قائم مقام صدر اور سینیٹ کے چیئرمین نے دیا جو پرویز مشرف کے نامزد کردہ تھے، پیپلز پارٹی نے این آر او نہیں کیا تھا، این آر او پرویز مشرف نے اور ان کی کابینہ نے کیا تھا۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ ن لیگ کی حکومت نے خود قائم نہیں کیا تھا بلکہ سپریم کورٹ نے انہیں کیس درج کرنے پر مجبور کیا تھا، سول ملٹری تعلقات کو پرویز رشید کے اس بیان سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم غلیل والوں کے نہیں قلم والوں کے ساتھ ہیں، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں معذرت خواہانہ انداز میں بحث کی تھی۔