اسلام آباد (انصار عباسی) جمعرات کو گرفتاری سے قبل نیب کے پاس شاہد خاقان عباسی کیخلاف کرپشن کے متعلق کوئی مخصوص الزامات نہیں تھے کیونکہ سابق وزیراعظم کو ایل این جی معاہدے کے حوالے سے فراہم کیا گیا سوالنامہ مبینہ کرپشن کی تحقیقات میں ٹھوس شواہد جمع کرنے کا معاملہ ہونے کی بجائے پیچیدہ موضوع کو سمجھنے کی کوشش تھا۔ ایل این جی معاہدے کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہوئے شاہد عباسی نے نیب کو بتایا کہ اگر فرنس آئل جنریشن کے غیر موثر طریقے کی جگہ پر ایل این جی استعمال کی جائے تو 70؍ ڈالر پر برینٹ ایل این جی سے پاکستان کو سالانہ 2؍ ارب ڈالرز کی بچت ہوگی۔ انہوں نے نیب کو بتایا کہ اس معاہدے میں PPRA قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ جس نرخ پر یہ معاہدہ کیا گیا ہے وہ انتہائی کم ترین ہے۔ نیب کو دیے گئے تحریری جواب میں عباسی کا کہنا تھا کہ ’’13.37؍ فیصد برینٹ برائے 3؍ MTPA ایل این جی کی مقدار ایسے دیگر ملکوں کے مقابلے میں انتہائی سستی ہے جنہوں نے ایل این جی کی زیادہ مقدار کیلئے ٹھیکہ دیا۔ جاپان نے 14.5؍ فیصد پر 40؍ MTPA برینٹ، بھارت نے 14.3؍ فیصد پر 9؍ MTPA برینٹ (جس کے نرخوں پر پاکستان کے SPA کے بعد دوبارہ مذاکرات کرکے 13.9؍ فیصد پر لایا گیا) اور کوریا نے 14.25؍ فیصد پر 11؍ MPTA برینٹ حاصل کی۔‘‘ نیب نے اپنے سوالنامے میں چند آڈٹ اعتراضات کا حوالہ دیا ہے اور سوال کیا ہے کہ قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدے میں نواز شریف کے کیا مفادات تھے؟ شہباز شریف اور سیف الرحمان کے کردار کے حوالے سے بھی سوالات کیے گئے ہیں۔ نیب نے عباسی سے پوچھا: ’’اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا ایل این جی معاملات میں کردار اور قطری امیر کے ساتھ ذاتی اور کاروباری تعلقات کیا تھے؟ سیف الرحمان کا شریف فیملی کے ساتھ کیا تعلق ہے اور ان کا قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدے میں کیا کردار تھا؟‘‘ شاہد عباسی نے جواب دیا: ’’ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا قطر کے ساتھ حکومتی سطح پر ہونے والے ایل این جی معاہدے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ 2015ء میں قطر کے امیر کے دورۂ پاکستان کے موقع پر بحیثیت وزیراعظم ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں، ایل این جی کی قیمت کا معاملہ بات چیت کا موضوع تھا۔ قطر اپنے ایل این جی کے صارفین کے ساتھ اپنی ریاستی پٹرولیم کمپنی، قطر پٹرولیم، کے ایگزیکٹوز اور کمپنی کے ذیلی اداروں کے توسط سے مذاکرات کرتا ہے۔ حکومت سے حکومت سطح پر کیے جانے والے رابطوں میں قطری امیر یا کسی تیسرے فریق سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جاتے۔ میں مسٹر سیف الرحمان کو گزشتہ 35؍ سال سے اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ سعودی عرب میں بزنس مین تھے۔ وہ گزشتہ 30؍ سال سے قطر میں کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ 1997ء سے 1999ء تک اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں سینیٹر اور چیئرمین احتساب بیورو رہ چکے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کا نواز شریف کے ساتھ کوئی اور تعلق بھی رہا ہے۔ مسٹر سیف الرحمان کا قطر سے ایل این جی کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں، یہ معاہدہ انتہائی شفاف انداز سے حکومت پاکستان اور قطر کی کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کے نامزد کردہ نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہوا ہے اور اس میں کسی بھی تیسرے فریق کی شمولیت نہیں رہی۔‘‘ نیب نے قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدے میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کردار کے حوالے سے بھی سوال کیا ہے اور اس میں قطری امیر کی جانب سے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف / حسین نواز کو دیے گئے خط کا پہلو پیش کیا گیا ہے۔ اس پر عباسی نے سوال کیا گیا ہے کہ وہ اس تاثر اور تحفظات کو کیسے دور کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں عباسی کا کہنا تھا کہ ’’اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا حکومت سے حکومت کی سطح پر ہونے والے ایل این جی معاہدے میں کوئی ذاتی تعلق یا کردار نہیں تھا۔ یہ وفاقی حکومت کی جانب سے کیا جانے والا معاہدہ تھا اور اس عمل میں حکومت پنجاب کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ تاہم، 2015ء میں قطری امیر کے ساتھ ہونے والے وسیع مذاکرات میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نے درخواست کی تھی کہ پاکستان کو برینٹ ایل این جی کی قیمت 13؍ فیصد پر دی جائے۔ قطر اپنے ایل این جی صارفین کے ساتھ اپنی ریاستی کمپنی، قطر پٹرولیم، کے ایگزیکٹوز اور ذیلی اداروں کے توسط سے مذاکرات کرتا ہے، حکومت سے حکومت کی سطح پر ہونے والے اس معاہدے کے معاملے میں قطری امیر یا کسی تیسرے فریق کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔ قطر کے ساتھ کیے گئے خرید و فروخت کے معاہدے (Sales Purchase Agreement) یعنی ایس پی اے پر جس ’’قطری خط‘‘ کا حوالہ سوال میں دیا گیا ہے اس سے قبل ہی مذاکرات اور دستخط ہو چکے تھے۔ قطری ادارے اور ایگزیکٹوز نے پاکستانی ہم منصبین کے ساتھ انتہائی پیشہ ورانہ اور کاروباری انداز میں مذاکرات کیے اور اس میں مکمل شفافیت برتی گئی اور کسی طرح کا اثر رسوخ استعمال نہیں کیا گیا۔‘‘ نیب نے آڈٹ پیرا - دیگر سستے معاہدوں کے مواقع تلاش کیے بغیر زیادہ نرخوں پر ایل این جی خریدنے - پر عباسی سے رائے طلب کی۔ آڈیٹرز کا مشاہدہ تھا کہ قطر کے ساتھ جن نرخوں پر مذاکرات کیے گئے وہ بہت زیادہ تھے جبکہ اوپن مارکیٹ میں یہ کاروبار کرنے والی کمپنیاں اُن نرخوں سے بہت کم نرخوں پر ایل این جی فروخت کر رہی تھیں جن پر قطر کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے۔ اسلئے اگر کھل کر مسابقتی عمل اختیار کیا جاتا اور، اوپن مارکیٹ اور ایل این جی پیدا کرنے والے دیگر ملکوں کے اعداد و شمار اقتصادی رابطہ کمیٹی میں پیش کیے جاتے تو عوام کا پیسہ بچایا جا سکتا تھا۔‘‘ اس پر سابق وزیراعظم شاہد عباسی کا کہنا تھا کہ ’’ یہ آڈٹ پیرا خالصتاً مارکیٹ سے ایل این جی حاصل کرنے کے پیچیدہ طریقہ کار کے حوالے سے غلط فہمیوں کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔ جدول میں بتائے گئے نرخ (جن کا ذکر آڈٹ پیرا میں موجود ہے) پاکستان کی جانب سے فوری خریدی گئی (Spot Purchase) ایل این جی کے ہیں جن کا انحصار مارکیٹ میں طلب و رسد، ایل این جی کارگوز کی دستیابی اور سیزنل صورتحال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پاکستان نے اِن نرخوں سے نسبتاً زیادہ ادائیگیاں بھی کی ہیں، اور فوری خریداری کے معاملے میں 17؍ فیصد پر برینٹ ایل این جی خریدی ہے۔ پاکستان کی توانائی کی سپلائی کیلئے ضروری سمجھی جانے والی مستقل مقدار کیلئے فوری طور پر خریداری کے حوالے سے اوپن مارکیٹ کی صورتحال، دستیابی اور نرخوں میں اتار چڑھائو پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ایل این جی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مدتی معاہدوں اور مستقل سپلائی کے ذرائع ضروری ہیں اور تمام ممالک طویل مدتی معاہدے کرتے ہیں تاکہ اپنی مستقبل کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ قلیل مدتی، پانچ سال، ماہانہایک کارگو MSPA، اور 13.37؍ فیصد پر برینٹ کے حصول کو نیلامی کے عمل کے ذریعے 15؍ سال کیلئے یعنی پانچ کارگو ماہانہ MSPA کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا اور قطر گیس نے برینٹ کی سطح کم کرکے 13.37؍ فیصد پر گیس فراہم کی جو دنیا بھر میں ایل این جی کے معاہدوں میں بے مثال ہے۔‘‘ ایک اور آڈٹ رپورٹ - وزیراعظم کی ہدایات پر ایل این جی معاہدے کو کابینہ سے منظور نہ کرانا - کے حوالے سے نیب نے عباسی سے رائے طلب کی ہے۔ اس پر عباسی کا کہنا ہے کہ ’’کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 13؍ جنوری 2016ء کو ہونے والے پی این سی کی سفارشات کی روشنی میں قطر گیس کے ساتھ خرید و فروخت کے معاہدے کی منظوری دی اور جہاں تک ریکارڈ کی بات ہے تو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے تمام فیصلوں کو کابینہ کی توثیق حاصل ہوتی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی یا کابینہ کے فیصلوں کے حوالے سے مزید کوئی بھی معلومات کابینہ ڈویژن اور وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن) سے حاصل کی جا سکتی ہیں؛ تاہم، اس معلومات تک میری رسائی نہیں ہے۔‘‘ عباسی نے نیب کو بتایا کہ ’’پاکستان گزشتہ 20؍ سال سے دو گیس پائپ لائن پروجیکٹس پر کام کر رہا ہے لیکن اس میں کامیابی نہیں ملی؛ ایران پاکستان گیس پائپ لائن ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے رکاوٹ کا شکار ہے جبکہ ترکمانستان افغانستان، پاکستان انڈیا (ٹاپی) پروجیکٹ گیس پائپ لائن افغانستان کی سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے رکاوٹ کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں منصوبوں سے قدرتی گیس کی قیمت نرخوں کے پیچیدہ فارمولوں کی بنیاد پر طے کی گئی ہیں جو مسابقتی بنیادوں پر فراہمی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو برینٹ کے 14؍ فیصد کے مساوی بنتا ہے۔ 2005ء سے پاکستان کیلئے ایل این جی سپلائی چین قائم کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں جو تمام ناکام رہیں۔ نون لیگ کی حکومت نے کامیابی کے ساتھ 20؍ ماہ میں یہ پوری سپلائی چین قائم کی، اور اِس وقت سسٹم کو 70؍ ڈالر برینٹ پر 9.2؍ ڈالر ایم ایم بی ٹی یو کے ریٹ پر ایل این جی مل رہی ہے۔‘‘ انہوں نے نیب کو بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ کی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی سپلائی چین سسٹم میں ایس ایس ایف او / ایل ایس ایف او سے تقابلی لحاظ سے 15؍ فیصد کم نرخوں پر ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے ایل این جی شامل کر رہی ہے۔ وزارت پاور اینڈ قدرتی وسائل اور وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے 2005ء سے قدرتی گیس اور ایل این جی کی ضرورت کے حوالے سے کئی فزیبلٹیاں کی ہیں اور رپورٹس مرتب کی ہیں۔‘‘ عباسی کا کہنا تھا کہ قطر دنیا میں ایل این جی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک اور ایل این جی کی سب سے زیادہ دستیاب مقدار رکھنے کا والا ملک ہے، خصوصاً اس کے پاس پاکستان کیلئے ضروری مقدار موجود ہے۔ پاکستان 2005ء سے قطر کے ساتھ حکومت سے حکومت کی سطح پر ایل این جی حاصل کرنے کیلئے مذاکرات کر رہا ہے لیکن ان کوششوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ پاکستان کے پاس ایل این جی ری گیسی فکیشن (Regasification) کی سہولت موجود نہیں تھی۔ قطر سے ایل این جی حاصل کرنے کا فیصلہ 2013ء میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیا اور اس مقصد کیلئے قیمتوں پر مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی (Price Negotiation Committee) تشکیل دی گئی۔ 2013ء میں قطر دنیا کا وہ واحد ایل این جی پیدا کرنے والا ملک تھا جو طویل مدتی بنیادوں پر پاکستان کو ماہانہ کم از کم چار ایل این جی کارگو فراہم کرنے کیلئے تیار تھا؛ قطر کے سوا پاکستان کے پاس کوئی اور قابل بھروسہ سپلائر کا آپشن نہیں تھا۔ عباسی نے کہا کہ ایل این جی کی خرید و فروخت کیلئے طویل مدتی معاہدے کیلئے طویل مذاکرات ہوتے ہیں اور PPRA قوائد کے مطابق یہ کام صرف حکومت سے حکومت کی سطح پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی ایسی مثال موجود نہیں ہے کہ ایل این جی کی سپلائی کیلئے طویل مدتی معاہدہ نیلامی یا ٹینڈر کے عمل کے ذریعے کیا گیا ہو۔ در حقیقت، 2017ء میں پاکستان دنیا میں وہ پہلا ملک تھا جس نے اطالوی کمپنی ENI کے ساتھ ٹینڈرنگ کے عمل کے ذریعے ماہانہ ایل این جی کارگو کے ماسٹر SPA (MSPA) کا معاہدہ کیا۔ اس ایم ایس پی اے کی بنیاد قطر کے ساتھ کیے گئے معاہدہ ایس پی اے تھا جس پر پہلے ہی مذاکرات کیے جا چکے تھے۔ نیب نے سوال کیا کہ فوری خریداری یا کھلی نیلامی کے علاوہ حکومت سے حکومت کی سطح پر معاہدہ کس نے کیا؟ قطر کے ساتھ حکومتی سطح پر کیے گئے معاہدے سے ایسے کیا فوائد حاصل ہوئے جو کھلی نیلامی کے نتیجے میں حاصل نہیں ہو پاتے؟ اس سوال پر شاہد عباسی کا کہنا تھا کہ ’’حکومتی سطح پر کسی بھی ملک یا تنظیم سے قدرتی گیس یا ایل این جی کی فراہمی کا معاہدہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا فیصلہ تھا۔ 2013ء میں، حکومتی سطح پر ایل این جی کی خریداری کے سوا اور کوئی آپشن نہیں تھا، اس سے پہلے طویل مدتی بنیادوں پر دنیا میں کہیں بھی ایل این جی کی فراہمی کیلئے نیلامی یا ٹینڈرنگ کے عمل کے ذریعے معاہدہ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ ایل این جی پیدا کرنے والے ہر ملک کی منفرد صلاحیتیں اور خصوصیات ہوتی ہیں، جبکہ فوری خریداری (Spot Buying) صرف قلیل مدتی بنیادوں پر ایل این جی کی محدود مقدار حاصل کرنے کیلئے ہی قابل عمل ہے کیونکہ گیس کی دستیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاتی جبکہ قیمتوں میں اتار چڑھائو (Volatile Pricing) ہوتا رہتا ہے اور گزشتہ چار سال کے دوران پاکستان کو اسی تجربے سے گزرنا پڑا تھا۔ 2013ء میں پاکستان کے پاس قطر کے سوا کسی اور ملک سے ایل این جی حاصل کرنے کا قابل بھروسہ آپشن نہیں تھا۔‘‘ عباسی سے سوال کیا گیا کہ قطر سے ایل این جی کی خریداری حکومتی سطح پر کرنے کے عمل میں PPRA قوائد پر عمل کیا گیا؟ اگر ہاں تو کیسے؟ شاہد عباسی نے جواب دیا کہ کھلی نیلامی کی عدم موجودگی میں قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کیلئے حکومتی سطح پر کیے گئے معاہدے میں پی پی آر اے قوائد پر عمل کیا گیا کیونکہ اس معاملے میں کسی استثنیٰ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ تاہم، حکومتی سطح پر کئے گئے مذاکرات کے نتیجے میں کیے گئے معاہدے کے معاملے میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اجازت دیتی ہے۔ ای سی سی نے 2؍ جولائی 2013ء کو اپنے فیصلے کی روشنی میں وزارت پاور اینڈ نیچرل ریسورسز کو اجازت دی کہ وہ قطر کے ساتھ حکومتی سطح پر ڈی ای ایس بنیادوں پر500؍ ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی درآمد کیلئے مذاکرات کرے۔ لہٰذا، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور قطر گیس آپریٹنگ کمپنی (قطر گیس) کو متعلقہ حکومتوں نے ایل این جی کی خرید و فروخت کا معاہدہ کرنے کیلئے نامزد کیا۔ نیب نے شاہد عباسی سے سوال کیا کہ کیا آپ نے ایل این جی کی دیگر ذرائع سے قیمتوں کے متعلق تسلی کر لی تھی؟ اُس وقت کی دستاویزات فراہم کریں۔ اس سوال پر سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ ایل این جی کی قیمتوں کے دیگر دستیاب ذرائع سے قیمتیں معلوم کرنے کی تمام کوششیں کی گئی تھیں۔ جی ہاں، میں مکمل طور پر مطمئن ہوں کہ قطر ایس پی اے نے پاکستان کو مستقل اور طویل مدتی بنیادوں پر گیس کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کی اور اس مقصد کیلئے ایل این جی پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے ساتھ مذاکرات میں انتہائی شفافیت برتی گئی اور ساتھ ہی مارکیٹ کے مقابلے میں بہترین قیمتیں طے کی گئیں۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ Price Negotiating Committee نے انتہائی لچکدار قیمتوں کے حصول کیلئے مذاکرات کیے اور یہ 15؍ سال کیلئے ماہانہ چار ایل این جی کارگو کا حصول تھا، اس میں قیمت وہی تھی جو 13.37؍ فیصد برینٹ کے Guvnor کے ساتھ کیے گئے پانچ سال کیلئے ماہانہ ایک ایل این جی MSPA کارگو کیلئے طے کیے گئے تھے۔ مزید برآں، سب سے کم بولی دینے والی کمپنی شیل کو پانچ سال کیلئے ماہانہ ایک ایل این جی کارگو پہنچانے کی پیشکش کی گئی تھی تاکہ 13.37؍ فیصد برینٹ کے نرخوں کو ہم آہنگ کیا جا سکے لیکن اس نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قطر گیس کی قیمتیں مارکیٹ کے مقابلے میں بہت مناسب تھیں۔ نیب نے عباسی سے سوال کیا کہ ایف جی ای (انرجی کنسلٹنٹ) کون ہے؟ کیا آپ نے ایل این جی کی قیمتوں کے تعین کیلئے بحیثیت انٹرنیشنل کنسلٹنٹ ایف جی ای کی نامزدگی کے حوالے سے اس کی ریٹنگ کے متعلق تسلی کی تھی؟ شاہد عباسی کا اس سوال پر جواب یہ تھا کہ ایف جی ای دنیا بھر میں سب سے بڑا ایل این جی کنسلٹنٹ ادارہ ہے جسے USAID نے سخت مسابقتی طریقہ کار کے تحت اپنے انرجی پالیسی پروگرام برائے پاکستان کے تحت منتخب کیا تھا۔ پاکستان کو ایل این جی کے حصول کے معاملے میں معاونت اور خدمات کی فراہمی میں ایف جی ای کی ساکھ اور صلاحیت پر کوئی شک و شبہ نہیں تھا کیونکہ اسے یو ایس ایڈ نے مارکیٹ میں اس کے تجربے اور ساکھ کی وجہ سے منتخب کیا تھا۔ ایف جی ای کی صلاحیت، تجربے، معلومات اور مسابقت کے حوالے سے تفصیلات ان کی ویب سائٹ fgenergy.com پر موجود ہیں۔ نیب نے سوال کیا کہ ایف جی ای کے انتخاب کا طریقہ کار کیا تھا؟ اسے ادائیگی کیسے کی گئی اور کس نے کی؟ اس پر شاہد عباسی نے جواب دیا ہے کہ ایف جی ای کو یو ایس ایڈ نے منتخب کیا تاکہ ایل این جی کی قیمتوں کا تعین شفاف اور مستابقتی عمل کے تحت اور انرجی پالیسی پروگرام کے تحت کیا جا سکے۔ ایف جی ای کی جانب سے کیا جانے والے جائزے اور تجزیے پر عمل کے ہم کسی طرح سے پابند نہیں تھے کیونکہ انہیں اور ان کے ماتحت اداروں کو صرف حکومت پاکستان کی مدد کیلئے منتخب کیا گیا تھا تاکہ ہمیں اس صنعت کی معلومات، روایات اور ایل این جی کے حصول کیلئے مارکیٹ کی صورتحال کا علم ہو سکے۔ ایف جی ای کو اس کی خدمات کے عوض کی گئی تمام ادائیگیاں یو ایس ایڈ نے اپنے انرجی پالیسی پروگرام کے تحت کیں۔ اس میں حکومت پاکستان نے رقم خرچ نہیں کی۔ نیب نے سوال کیا کہ Price Negotiating Committee (قیمتوں کے تعین کیلئے تشکیل دی گئی کمیٹی) اور قطر کے ساتھ قیمتوں کے تعین اور فیصلہ سازی میں اُس وقت کے سیکریٹریز وزارت پاور اور قدرتی وسائل (مسٹر عابد سعید اور مسٹر ارشد مرزا) کا کیا کردار تھا؟ اس پر سابق وزیراعظم شاہد عباسی کا کہنا تھا کہ مسٹر عابد سعید اور مسٹر ارشد مرزا کو سرکاری قواعد اور رولز آف بزنس کے تحت وزارت میں انتظامی طور پر کام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور انہوں نے مسابقت اور اچھی ساکھ کے ساتھ اپنا کام کیا۔ وہ پی این سی کے چیئرمین بھی تھے اور انہوں نے پی این سی کے مذاکرات میں بھی شرکت کی۔ 2014ء سے 2016ء تک جتنی بھی پی این سی میٹنگز ہوئیں ان کے اہم نکات اس جواب کے ساتھ لف ہیں۔ پی این سی جیسی کمیٹیاں مشترکہ فیصلہ سازی کیلئے فورم ہوتی ہیں، یہ ممکن ہیں کہ کمیٹی کے کسی ایک رکن بالخصوص کمیٹی کے چیئرمین کے فعال اور غیر فعال کے طور پر درجہ بندی کی جا سکے کیونکہ وہ تندہی اور جانفشانی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور حاصل ہونے والے نتائج کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی غیر فعال رکن کے طور پر نہیں کی جا سکتی۔‘‘