• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: پرویز فتح ۔۔۔ لیڈز
10جولائی برصغیر کے عظیم مارکسی دانشور، انقلابی رہنما اور پاکستان میں ترقی پسند تحریک کے بانیوں کے سرخیل سی آر اسلم کی بارہویں برسی تھی جو 10جولائی 2007کو اپنے دوستوں، ساتھیوں اور رفیقوں سے 70سالہ طویل رفاقت نبھا کر رخصت ہوگئے تھے۔ بلاشبہ سی آر اسلم ترقی پسند تحریک کا ایک اہم باب تھے۔ انیسویں صدی میں انگریز سامراج نے اپنی کپڑے کی صنعت کا خام مال پیدا کرنے کے لئے پنجاب میں آبپاشی کے لئے نہروں کا جال بچھایا تو زیر کاشت آنے والے علاقوں میں وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ انہی نقل مکانی کرنے والوں میں جالندھر کے محمد اولیاء بھی تھے جو شیخوپورہ کے قریب شاہ کوٹ کے ایک گائوں کوٹ نظام دین میں آباد ہوئے۔ 15 جنوری 1909ء کو یہیں ان کے بیٹے چوہدری رحمت اللہ پیدا ہوئے جو سیاسی حلقوں میں سی آر اسلم کے نام سے جانے گئے۔ ان کے والد ایک چھوٹے کسان تھے۔ زمین کم تھی اور آمدنی محدود، اس لئے ان کے والد انہیں میٹرک کے بعد کالج میں داخل نہ کروا سکے۔ لہذا سی آر اسلم نے کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا اور پرائیوٹ طور پر اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ پہلے انہوں نے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا بعد میں انگریزی کے امتحانات پاس کرکے ایف اے اور بی اے کی اسناد حاصل کیں۔ اس دوران پنجاب میں آبیانے کی شرح میں اضافے پر کسانوں نے بغاوتیں شروع کردیں۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں اور عالمی کسادبازاری سے برطانوی سامراج کی صنعت تباہ ہوچکی تھی اور اس کو تشکیل نو بھی نوآبادیاتی نظام اور محکوم ممالک کی لوٹ مار سے بھی کرنا درکار تھی۔ کسانوں کی تحریکیں زوروں پر تھیں اور بھگت سنگھ کے والد سردار کشن سنگھ بھی اس تحریک کی رہنمائی کرنے والوں میں شامل تھے۔ سی آر اسلم کے والدمحمد اولیاء بھی اس تحریک سے منسلک ہوگئے اور اس طرح سی آر اسلم کو بھی اپنے والد کے ساتھ اس تحریک کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کے مواقع ملتے رہے۔ کسانوں کی اس تحریک کے سی آر اسلم کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کئے اور انہیں محنت کش اور پسے ہوئے مظلوم و محکوم طبقات کی تحریک اور ترقی پسند نظریات سے گہری دلچسپی ہونے لگی اور وہ محنت کشوں کی جدوجہد کے ہمدرد بن گئے۔ جب ان کے بڑے بھائیوں نے تعلیم مکمل کرلی تو ان کے والد نے سی آر اسلم کو پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور مٰں داخل کروا دیا۔ لاہور میں قیام کے دوران وہ ادبی محفلوں میں شرکت کرنے لگے جس کے باعث حمید نظامی (جو گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل میں بھی ان کے ساتھ تھے)، عبدالستار نیازی اور محمد شفیع (م۔ ش) جیسے رجعت پسندوں سے ان کی دوستی ہوئی اور وہ ایک کمرے میں اکٹھے رہنے لگے۔ یہیں سے ان کے اشتراک باہم سے ہفت روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا گیا جو اب روزنامہ ہے۔ یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ نوائے وقت کا ڈیکلریشن ابتداً سی آر اسلم کے نام پر جاری کروایا گیا تھا کیونکہ اس کام کےلئے حمید نظامی کی اہلیت آڑے تھی۔ اس طرح ہفت روزہ نوائے وقت کے پہلے پبلشر اور ایڈیٹر سی آر اسلم تھے۔ 1936ء میں انہوں نے لاء کی ڈگری حاصل کی تو تلاش روز گار کا کٹھن مرحلہ درپیش تھا۔ 1939ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو انہیں اکائونٹنٹ کی آسامی پر تعینات کردیا گیا۔ 1940ء میں انھیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی باقاعدہ رکنیت بھی مل گئی۔ پارٹی رہنما کامریڈ ہزارہ سنگھ کے مشورے پر انہوں نے 1941ء میں ایف سی کالج لاہور میں شعبہ معاشیات میں ایم اے میں داخلہ لیا تاکہ طبقات کے درمیان تفریق طبقاتی لوٹ کھسوٹ، مارکسزم اور جدلیاتی مادیت کو زیادہ واضح اور بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ اسی سال انہیں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی پنجاب شاخ کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ 1943ء میں انہوں نے ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کرلی جو محض پارٹی رہنما دادا فیروز الدین منصور کے اسرار کے باعث ہی مکمل ہوسکا۔ اپنے دیہی پس منظر کے باعث وہ کسانوں میں کام کرکے انہیں ان کے مسائل کے حوالے سے منظم کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی کے اصرار پر انہوں نے مزدوروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ لیبریونین میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 1948ء میں وہ نارتھ ویسٹ ریلوے ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے جس کے صدر مرزا محمد ابراہیم اور نائب صدر نامور شاعر فیض احمد فیض تھے۔ 1948ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کی دوسری کانگریس کے موقع پر سی آر اسلم، مرزا ابراہیم، سوبھوگیانچندانی، جمال الدین بخاری اور پروفیسر ایرک سپرین ریلیگیٹ منتخب ہوئے لیکن مرزا ابراہیم ریلوے کی تاریخی ہڑتال کی کال دینے کے باعث گرفتار کرلئے گئے تھے جبکہ سی آر اسلم ہڑتال منظم کرنے کی مصروفیت کے سبب شرکت نہ کرسکے۔ اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں الگ اور مغربی پاکستان میں الگ پارٹی ونگ قائم کیا جائے۔ سید سجاد ظہیر کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا اور ایک سینٹرل کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں پروفیسر ایرک سپرین، مرزا ابراہیم، سی آر اسلم، سبط حسن، مرزا اشفاق بیگ، محمد حسین عطا، سوبھوگیانچندانی اور جمال الدین بخاری شامل تھے۔ سی آر اسلم پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ 1948ء میں گرفتار ہوئے تھے۔ ابتداً انہیں سینٹرل جیل لاہور میں محبوس کیا گیا، بعد ازاں انہیں میانوالی جیل منتقل کردیا گیا۔ 1951ء میں سی آر اسلم نے عام انتخابات میں لائلپور (فیصل آباد) میں چوہدری فتح محمد اور چوہدری محمد شریف اور لاہور میں مرزا محمد ابراہیم کی انتخابی مہم میں تندہی سے کام کیا۔ اس کے بعد سی آر اسلم کو لاہور، مظہر علی خان اور پروفیسر صفدر میر کو لائلپور میں علیحدہ علیحدہ انتخابی مہم منظم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ کے یہ پہلے انتخابات تھے جن میں  انتخابی دھاندلی کی بنیادیں بڑی مہارت کے ساتھ استوار کی گئیں جو اب تک مسلسل ارتقاء پذیر ہیں۔جولائی 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ عوامی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا اور اس کی ساری لیڈرشپ کو پس دیوار زنداں بھیج دیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد سی آر اسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور جب حسین شہید سہروردی نے نہر سوئز پر حملہ کے موقع پر برطانیہ کی حمایت میں بیان جاری کیا تو اس جماعت میں شامل تمام ترقی پسندوں نے مولانا بھاشانی کی قیادت میں اس طرز عمل اور سامراج نوازی کی پوری قوت کے ساتھ مزاحمت شروع کردی۔ 1957ء میں ملک بھر کے ترقی پسندوں نے جن میں مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی اور مسیح الرحمان جبکہ مغربی پاکستان سے میرغوث بخش بزنجو، میاں افتخار الدین، سی آر اسلم، میاں محمود علی قصوری، خیربخش مری، خان عبدالغفارخان شامل تھے ملا کر نیشنل عوامی پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔ اس جماعت کی تشکیل پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی، صوبائی خودمختاری اور امریکی معاہدات کی مخالفت جیسے اصولوں کی بنیاد پر رکھی گئی تھی۔ لیکن سی آر اسلم اور ان کے ساتھیوں نے جو طبقاتی سیاست پر یقین رکھتے تھے پارٹی تنظیم کے ساتھ ساتھ محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کو دوبارہ منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ دیہاتوں میں جگہ جگہ جاکر کسان کمیٹیاں بنائیں اور صنعتی اداروں میں ٹریڈ یونینوں کو منظم و فعال بنایا۔ 1963ء میں انہوں نے چوہدری فتح محمد اور سردار شوکت علی کی مدد سے ملتان میں کسان کانفرنس منعقد کرکے پاکستان کسان کمیٹی نئے سرے سے منظم کرنے کا آغاز کیا۔ جس کے باعث ایک طرف تو کسانوں کو بڑے پیمانے پر منظم کرنے میں مدد ملی تو دوسری طرف کسان کانفرنسیں منعقد کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس طرح چنی گوٹھ، ٹانڈہ، لودھراں، سبی، پشاور اور سرائے عالمگیر میں بڑی کسان کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ ادھر انہوں نے مرزا ابراہیم اور کنیز فاطمہ کی مدد سے کراچی، کوئٹہ، گوجرانولہ، لاہور اور پشاور میں لیبر کانفرنسیں منعقد کرکے صنعتی مزدوروں میں پارٹی کے اثرکو بڑھانے کا کام شروع کردیا۔ اس عرصہ میں چین اور سوویت یونین کی پارٹیوں کے اختلافات نے سراٹھایا جس کے باعث دنیا بھر کے ترقی پسند چین نواز اور روس نواز دھڑوں میں منقسم ہوگئے۔ نشینل عوامی پارٹی بھی اس تقسیم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور دو دھڑوں ولی گروپ اور بھاشانی گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ سی آر اسلم بھاشانی گروپ مغربی پاکستان کے لیڈر تھے۔23مارچ 1970ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد کی جانے والی تاریخی کسان کانفرنس کی تیاری، انتظامات اور انعقاد میں سی آر اسلم نے کسان رہنما اور کانفرنس کے آرگنائزر چوہدری فتح محمد اور دیگر ساتھیوں کی جس طرح مدد اور رہنمائی کی وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ اس کانفرنس میں 3لاکھ سے زائد کسانوں، مزدوروں، طلباء، خواتین اور دانشوروں نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کے اثرات اتنے گہرے اور دوررس ثابت ہوئے کہ تمام سیاسی جماعتوں یہاں تک کہ جماعت اسلامی کو بھی اپنے منشور میں زمین کی حد ملکیت کو شامل کرنا پڑا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان کے ساتھیوں نے 23مارچ 1971ء کو خانیوال میں کنونشن کرکے پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی تو سی آر اسلم اس کے صدر عابد حسن منٹو اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ سی آر اسلم کو ہر مارشل لاء دور میں جیلوں میں ڈالا گیا جس میں ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاء شامل تھے۔ 1999ء میں پاکستان کی تین بڑی ترقی پسند جماعتوں نے باہمی انضمام کرکے نیشنل ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی سی آر اسلام اس کے سرپرست اعلیٰ، عابد حسن منٹو صدر، یوسف مستی خان جنرل سیکرٹری اور طاہرہ مظہر علی خان نائب صدر منتخب ہوئے۔ کارکنوں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت ہمیشہ سی آر اسلم کے لئے اولین ترجیح رہی اور اس مقصد کے لئے وہ ساری زندگی شہر بہ شہر اور گائوں گائوں سفر کرتے رہے۔ کارکنوں کی تربیت کے لئے وہ پارٹی لٹریچر اور پارٹی اخبار کی اشاعت پر زور دیا کرتے تھے۔ 1969ء میں انہوں نے ہفت روزہ عوامی جمہوریت کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔ نظریاتی اور سیاسی سوچ و فکر کے اعتبار سے سی آر اسلم کی استقامت کو اگر کوہ گراں قرار دیا جائے تو قطعاً بے جا نہ ہوگا۔ ستر برس پہلے برصغیر کے عوام کے لئے بہتر زندگی کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا اور اس کے حصول کے لئے جس راہ کا انتخاب کیا تھا آخری سانس تک وہ صدق دل سے اس پر عمل پیرا رہے۔ اس طویل جدوجہد اور پرآشوب زندگی میں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہ آئی۔ سی آر اسلم ہر اس شخص کو اپنی محبت اور اعتماد کا اہل قرار دیتے جس کی نظریاتی وابستگی یعنی ترقی پسندی پر انہیں یقین ہو۔ یہ ان کی نظریاتی زندگی کا روشن پہلو تھا۔ انہیں اپنے آدرشوں سے اس قدر پیار اور والہانہ عشق تھا کہ جو کوئی اس رشتہ عشق سے وابستہ ہوا گویا وہ ان کی توجہ خاص کا مستحق ٹھہرا۔ سو میں ان فردوں میں سے ایک تھا جنہیں اس آفتاب و ماہتاب کی توجہ اور ضوفشانی حاصل رہی۔سی آر اسلم ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے چمک دھمک سے بھرپور اعلیٰ عہدوں اور وزارتوں کو کبھی قبول نہیں کیا تاہم ان کے پھیلائے ہوئے شعور اور آگہی سے آنے والی نسلوں کی نظریاتی و سیاسی رہنمائی ہوتی رہے گی اور وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
تازہ ترین