قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کی ایل این جی اسکینڈل میں گرفتاری نے جہاں سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا ہے وہیں پر اپوزیشن کی جانب سے گرفتاری کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نیب کی جانب سے شاہد خاقان پر قومی خزانے کو ڈیڑھ ارب کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے، سابق وزیراعظم کو ایل این جی کیس میں جمعرات کے روز نیب نے طلب کر رکھا تھا لیکن انہوں نے ایک دن کے نوٹس پر پیش ہونے سے معذرت کرتے ہوئے نیب کو خط لکھ کر آگاہ کر دیا تھا، اس کے باوجود اُنہیں لاہور میں داخل ہوتے ہوئے ٹھوکر نیاز بیگ ٹول پلازہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ نیب ذرائع کے مطابق سابق سیکریٹری پٹرولیم عابد سعید کے وعدہ معاف بننے پر گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ جمعہ کے روز نیب حکام نے شاہد خاقان عباسی کو احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش کیا اور جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ عدالت نے شاہد خاقان کو 13روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرتے ہوئے یکم اگست کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔ تیس سالہ سیاسی کریئر میں شاہد خاقان عباسی کی یہ دوسری گرفتاری ہے، اس سے قبل 1999ء میں انہیں طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے شاہد خاقان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام پر مبنی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کےخلاف کارروائیوں سے احتساب میں چھپا انتقام واضح ہو چکا۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ بیک وقت ایک سابق صدر اور دو سابق وزرائے اعظم سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ دو سابق وزرائے اعظم پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ملکی سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر لازم ہے کہ کسی بھی سیاسی شخصیت کی گرفتاری کے حوالے سے تمام مضمر پہلوئوں کا بغور جائزہ لیا جائے اور کوئی بھی ایسا سقم نہ چھوڑا جائے جس سے احتسابی عمل پر سوالات اٹھانے کا موقع میسر آئے۔ حکومتی حلقوں کو بھی اس حوالے سے بے جا تبصرے کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ بلا ضرورت اور غیر محتاط تبصروں سے اشتعال اور نفرت کی فضا پروان چڑھتی ہے۔