غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی دنیا کے متعدد ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک تشویشناک مسئلے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے خصوصاًپاکستان کے لئے ان غیر ملکی قرضہ جات کی شرائط،بتدریج زیادہ سخت اور کڑی ہوتی جا رہی ہیں، جس کی ایک مثال حال ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ہیں۔ ان قرضوں کی واپسی کے لئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو جو رقم درکار ہے وہ تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشی ماہرین کیسے اس بات کا یقین کریں گے کہ آئی ایم ایف کا یہ تیرہواں پروگرام آخری پروگرام ہے؟
ہمارے معاشی مسائل کوئی جادو کی چھڑی گھمانے سے حل نہیں کئے جا سکتے۔ اگر ہم قرضوں پر انحصار ختم کرنا چاہتے ہیں اور لئے گئے قرضوں کی واپسی کے لئے مزید قرضے لینے کی ضرورت کو ختم کرنا چاہتے ہیں توبنیادی تنظیمی اصلاحات انتہائی اہم اقدام ہیں، جنہیں ہمیں ہر حال میں کرنا ہوگا اس بات سے قطع نظر کہ ہمیں آئی ایم ایف کی امدادملتی ہے یا نہیں۔ اس مقصد کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جو کہنا آسان ہے پر کرنا مشکل، تاہم ہمارے اندرونی معاملات کی درستی ایک نئے معاشی طور پر مستحکم دور کے آغاز کے لئے بنیادی ضرورت ہے۔اسی طرح اچھی طرح سے دستاویز کی گئی ٹیکس اصلاحات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ مختصراََ ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس لیا جائے اور ٹیکس دینے والوں سے اضافی ٹیکس نہ لیا جائے۔ اسی طرح غیر دستاویزی معیشت کو بھی ٹیکس کے زمرے میں لانے کے لئے بھرپور اور مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ٹیکس چوروں کو پکڑنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال، اور ٹیکس کے عمومی انتظامی معاملات کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
مینوفیکچرنگ شعبے کی بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ یہ شعبہ پاکستان کی جی ڈی پی میں صرف اٹھارہ فیصد حصہ ڈالتا ہے،جو پاکستان ترقیاتی ضرورت کے لحاظ سے ایک مایوس کن شرکت ہے۔ یہ ملک وقت سے پہلے ہی غیر ٖصنعتی ہو گیا ہے۔ مقامی صنعت ملازمت کے مواقع مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کو بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ گو کہ ملک کو ٹیکس کی شرح بڑھانے کی ضرورت ہے، لیکن صنعت پرغیر ضروری طور پر ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے۔وسیع بنیادوں پر منصفانہ ٹیکس کا نظام مستحکم صنعتی شعبے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
پانچ سالہ منصوبے سے پہلے یعنی 1955 تک، پاکستان کا سالانہ اوسط تجارتی توازن ملک کے حق میں مثبت رہا۔ اس عرصے میں پاکستان کا تجارتی توازن صرف دومرتبہ منفی ہوا، پہلی مرتبہ سال1949-50 میں جب جنگ عظیم کے بعدایسا شدید معاشی بحران پیدا ہوا جو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ساری دنیا پر چھا گیا ہے اور دوسر ی مرتبہ 1951-52 میںکوریا جنگ کے بعد معاشی بحران آیا، جس کے بعد بھی لمبے عرصے تک پاکستان نے او جی ایل کے تحت صارفین کے استعمال کی اشیاء کی درآمدات جاری رکھیں۔پہلے پانچ سالہ منصوبے کے دوران یعنی 1955 سے 1960 تک، تجارتی توازن بالکل منفی ہو گیا۔ اس عرصے میں صرف ایک سال 1955-56 میں تجارتی توازن پاکستان کے حق میں آیا جب ہماری برآمدات کو عارضی طور پر فروغ ملا جس کی بنیادی وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی تھی۔ اس کے بعدسے پاکستان کا تجارتی توازن بہتر ہونے کے بجائے بگڑتا ہی چلا گیا اور اس وقت یہ پاکستانی تاریخ کی سب سے بلند ترین سطح پر آگیا ہے جو ساڑھے تین ہزار ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔
باوجود یہ کہ دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں برآمداتی بونس اسکیم کی وجہ سے ہماری برآمدات کی قدر میں اضافہ ہوا تھا، مگر پاکستان کبھی بھی تجارتی توازن کو اپنے حق میں نہیں کر سکا کیوںکہ ہماری درآمدات کی قدر ہماری برآمدات کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ اس عرصے میں بڑے پیمانے پر بیرونی امداد کاآنا اور بڑے پیمانے پر تجارتی عدم توازن اتفاقیہ نہیں تھا۔ اس امدادنے نہ صرف ترقیاتی اشیاء کی صورت اختیار کی بلکہ وافر مقدار میں اشیاء خورونوش اور دیگر زرعی اشیاء امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے حاصل کی گئیں۔ اسی دوران، پاکستان کا بیرونی تجارت کے حوالے سے خود انحصاری کا درجہ بہت تیزی سے گرتے ہوئے تاریخ کے سب سے نچلے درجہ تک پہنچا۔
تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے دوران 1965 سے 1970 تک، پاکستان کے منفی تجارتی توازن میں کچھ کمی آئی۔ یہ ممکن اس لئے ہوا کیونکہ اس وقت برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کی گئی۔ اس وقت پاکستان کے لئے اپنی درآمدات کو کم کرنا برآمدات بڑھانے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ اس کو آسان پیرائے میں ایسے بیان کیا جا سکتا ہے کہ بیرونی امداد کی کثرت نے پاکستان کے درآمدات پر انحصار کو بڑھا دیا ہے، جو صرف مشینری اور دیگر سامان تک محدود نہیں بلکہ اس میں بنیادی صنعتی سامان بھی شامل ہے۔ اس صورت حال کو بہتر ہونے میں کچھ وقت درکار ہو گا، کیونکہ اندورنی بنیادی صنعت کی تعمیر صبرآزما اور طویل مدتی عمل ہے۔
پاکستان میں لمبے عرصے تک اس تجارتی توازن کو بہتر بنانے کی کوئی بھی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی، اوربظاہر اس سلسلے میں تمام کوششیں بالواسطہ طور پر امداد فراہم کرنے والے ممالک کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئیں۔ جب بیرونی امداد بڑھی تو ساتھ ہی پاکستان کی درآمدات کی قدر میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس میں حیرانی کی بات نہیں کہ تجارتی توازن میں بگاڑ ہر سال بڑھتا ہی چلا گیا۔ مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ درآمدات کی قدر بڑھتی گئی اور برآمدات کی قدر گھٹتی گئی۔ اس وقت سے لے کرآج تک اس عدم توازن میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، جو سب سے زیادہ 2013-15کے دوران دیکھا گیا۔ جب تک ہماری درآمدات اور برآمدات میں توازن نہیں آئے گا، اور ہمارے قرضے اور امداد میں یکسوئی نہیں آئے گی تب تک ہماری سماجی اور معاشی خود مختاری میں بہتری نہیں ہو گی اور اس کی وجہ سے ہماری سیاست میں بھی خود مختاری کا بحران قائم رہے گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمارے معاشی ماہرین کے لئے پریشانی کا سبب بنے گا، لہٰذا اسے جتنا جلد حل کیا جائے اتنا بہتر ہو گا۔