• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:مسز شمیم ڈیوڈ…لندن
ذرائع ابلاغ یعنی ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات اور سوشل میڈیا نے خبر رسانی کے فن کو برقی رفتار سے بھی زیادہ تیز و سبک رفتار کر دیا ہے پل بھر میں ہزاروں میل دور دنیا کے ایک کونے سے دنیا کے دوسرے کونے کے ممالک میں خبریں بجلی کی کوند کی طرح پہنچ جاتی ہیں۔ذرائع ابلا غ نے دنیا کو گلوبل ولیج کا استعارہ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نا معلوم کس طلسماتی جاذبیت کی وجہ سے لندن کا پرانا اور تاریخی شہر خبروں پر رد ِ عمل کے اظہار کا گڑھ رہا ہے۔ خبر کہیں کی بھی ہو اگر عوام اُس پر اپنا غم و غصہ یا یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے تو لندن ان تمام اظہار ِ خیالات یا اختلافات کو اپنے دامن میں سمو لینے کیلئے ہرو قت مستعد اور تیار نظر آتا ہے۔لہٰذا احتجاج چاہے سلمان رُشدی کی کتاب پر ہو ، توہین آمیز خاکوں، مشرق ِ وسطیٰ کی جنگوں پر ہو، رو ہنیگیاہ کے مسلما نو ں کے قتل و عذاب پر ہو، کشمیر اور فلسطین کے افسوسناک انسانی حقوق کی پامالی کے حوالہ سے ہو یا پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالہ سے ہو۔ لندن کی گلیوں اور سڑکوں نے سب کی للکار اور پکار کی ارتعاش بڑی خندہ پیشانی سے اپنی فضائوں میں گونج جانے کا موقع دیا ہے۔ سر زمین لندن اپنے دامن کو مزید ووسیع کرتے ہوئے نہ محض اپنے ملکی مسائل بلکہ غیر ممالک اور بین الاقوامی مسائل جو عالمی سطح پر خاص توجہ اور غور و فکر کے مستحق ہیں اُن کو اپنے پارلیمانی گروپ کے ذریعہ ا علیٰ ایو انوں میں یعنی ہائوس آف کامنز اور ہائوس آف لارڈز میں لے جا کر زیر بحث لا کر مسائل کی اہمیت کو نہ صرف اجاگر کرتے بلکہ ان مسائل کے حل کیلئے تجاویز اور چارہ ِ کار پر بھی بحث کی جاتی ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے وہاں کی مذہبی اقلیتیں ایذا رسانی ، ناروا سلوک اور امتیازی قوانین کا شکار ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کی بگڑتی صورتحال تشویش کا باعث ہیں۔2جولائی 2019لارڈ ڈیوڈ ایلٹن آف لیورپول نے آل پارٹی پارلیمنٹرز گروپ برائے پاکستان مذہبی اقلیت کے ممبر کی حیثیت ہائوس آف لارڈز میں ا س بحث کا آغاز کیا اور انہوں نے اپنی تقریر کا آغازبانی پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی تقریر سے کیا جو انہوں نے 11 اگست 1947ء میں پہلی قانون ساز اسمبلی میں کی تھی کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور تمام شہری برابر کے شہری ہوں گے اور خاص طور پر اقلیتوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ آزاد ہوں گے۔ اُ نکو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہو گی۔ ریاست کا مذہب میں کوئی دخل نہیں ہوگا۔ لارڈ ایلٹن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کے 70 سال بعد پاکستان میںمذہبی اقلیتوں کے حوالہ سے بانی پاکستان قائد ِ اعظم محمد علی جناح کے نظریہ اور خواب سے صورتحال مختلف ہے۔ تمام مذہبی اقلیتیں ، ہندو، مسیحی، احمدی اور کیلاش انسانیت سوز ایذا رسانی، تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ لارڈ ایلٹن اور اُن کے رفقاء نے حکومت ِ برطانیہ سے سوال کیا کہ برطانیہ پاکستان کو انسانی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے دی جانے والی امداد اور پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم میں کیا مناسبت دیکھتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا یہ امداد اُن لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہو رہی ہے جن کیلئے یہ خاص طور پر متخصص کی گئی ہے۔ انہوں نے واضع کیا کہ پاکستان کے زمینی حقائق مختلف صورتحال پیش کرتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ اُن کے مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ آسیہ بی بی کا ایک واقعہ ہے جو ملکی اور عالمی سطح پر بہت مشہور ہوا۔ لیکن بیسوں ایسے اور واقعات ہیں جن کی وجہ سے لوگ بے بیان دکھ اور مصیبت برداشت کر رہے ہیں۔ قید خانوں میں محض الزام کی وجہ سے پڑے انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔ پولیس کا کردار اور طریقہ عمل بھی نہایت ظالمانہ اور پُر تشدد ہے۔ ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو مسلمان بنا کر اُن سے شادیاں کی جاتی ہیں۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو زبردستی اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی جاتی ہے اور ان کو ردّی کاغذ کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔ والدین غریب اور بے آواز ہونے کی وجہ سے مجبور ہو کر محض رونے دھونے اور سسکیوں میں زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی بستیوں کی ناگفتبہ حالت ہے۔ جہاں نہ پانی نہ بجلی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیاں ہیں جہاں پانی کے نکاس تک کا انتظام نہیں۔ یہ آبادیاں غربت، مفلسی، نادادرسی کی تصویر ہیں۔ ان آبادیوں کے بچوں کیلئے تعلیم اور صحت کا کوئی انتظام نہیں۔ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ لوگ اور بچے بھٹیوں پر قلیل اجرت پر غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اِن ہی حالات میں بھٹے پر کام کرنے والے ایک مسیحی جوڑے کو توہین رسالت کے الزام میں بھٹے میں پھینک دیا گیا۔ سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی وزیر برائے اقلیتی امور کو آسیہ بی بی کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں قتل کر کے ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ بادامی باغ کی جوزف کالونی پر حملہ اور تباہی مسیحیوں کیلئے نفرت اور عناد کی گواہی ہے۔ اقلیتوں کے لیے ادنیٰ اور حقیر ترین ملازمتوں کے امتیازی اور تضحیک آمیز اشتہار اقلیتوں کا معاشرہ میں کیا مقام ، عزت اور رتبہ ہے۔ ایسے اشتہارات خودبخود وضا حت کر دیتے ہیں ۔مثلاَ خا کروب کی اسا می کے لیے خا ص طور پر لکھا جا تا ہے کہ صرف غیر مسلم در خواست دیں۔پاکستان میں اقلیتوں کی ایسی زبوں حالی اور تنزلی کی حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لارڈ ایلٹن نے د فترکامن ویلتھ اور حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد ضرورت مند اور مستحق افراد اور کمیونٹیز تک ترسیل کے پروگرام پر نظر ثانی کرے اور جس مقصد کیلئے یہ امداد مختص کی گئی ہے۔ اُس کے مطلوب نتائج یقینی بنائے۔ دوسری جانب پاکستانی دفترخارجہ کا مذہبی آزادی پر امریکی رپورٹ کو متعصبانہ قرار دے کر مسترد کرنا افسوس ناک ہے۔ دفتر خارجہ کا بیان ہے کہ پاکستان ایک کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی ہے۔ جہاں مختلف عقائد کے لوگ پُر امن انداز میں رہتے ہیں اورآئین ِپاکستان لوگوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ دفتر خارجہ کا ایسا غیر سنجیدہ اوربعید از حقیقت بیان سفارتی امور کے رموز کا تقاضا پورا کرنے کیلئے دفتر خارجہ کی مجبوری تو ہو سکتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق بدل نہیں سکتا اور یہ بھی ممکن نہیں کہ دفتر خارجہ خارجی امور کو سلجھانے میں اتنا مصروف ہو کر ملک کے اندرونی حالات سے ایسا بے بہرہ ہو کہ اُن کو پاکستان میں اقلیتوں کی خستہ حالی اور بھیانک امتیازی سلوک کا علم ہی نہ ہو ۔ گوجرہ ،شانتی نگر، جوزف کالونی، سانگلہ ہل کے مکینوں یا سکول کے اُس لڑکے جس کو مسلم لڑکوں کا کلاس استعمال کرنے کی وجہ سے جان سے جانا پڑا۔ پطرس مسیح جس پر توہین رسالت کے الزام میں ظلم و تشدد کیا اور اُس کے چچا زاد بھائی ساجد مسیح کو شامل تفتیش کیا اور دوران ِ تفتیش اپنے ہی بھائی کے ساتھ نازیبا فعل کرنے پر مجبور کیا اور اُس نے بے بسی کے عا لم میں چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی۔ ڈسکہ کے نواحی گائوں کی نوجوان لڑکی جس کی وحشیانہ طریقے سے آبروریزی کی گئی اور وہ نیم مردہ حالت میں بستر پر پڑی رہی اور پولیس نے FIR تک نہ کاٹی۔ کوئی اِن مجبو ر ،غر یب مظلموںسے پوچھے کیا یہ پُر امن انداز ہے باہم مذاہب کے رہنے کا؟ کیا اس کو پُرامن باہمی رہائش و بقاء کہتے ہیں؟ دفترِ خارجہ کا کہنا بجا ہے کہ آئین ِ پاکستان اقلیتوں کو قانونی تحفظ دیتا ہے۔ دفتر ِ خارجہ سے سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ آئین ِ پاکستان میں اقلیتوں کے قانونی اور آئینی تحفظ ہونے کے باوجود ایسے واقعات جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اُن میں کمی کی بجائے شدت آتی جارہی ہے۔ یہ وہ سو ال ہے جو بین الاقوامی مجا لس، بحث و مشا ورت میں اٹھا یا جا تا ہے۔ برسلز میں وزیر خارجہ محمود شاہ قریشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں اِکا دکا واقعات کو مغرب اپنے مفادات کیلئے ہوا دیتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کا 5 جولائی بروز جمعہ کا بیان ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل حل کریں گے۔ حکومت کی دو اعلیٰ ترین منصوبوں کے دو متضاد بیان وزیرِ خا ر جہ کا اقلیتو ں کے مسائل سے مکمل انحراف اور وزیرِ اعظم کاہمدردانہ ردِعمل ، پاکستان کی اقلیتوں اور انسانی حقوق کے حوالہ مبہم اور منتشر پالیسی کا تاثر ملتا ہے۔ یہ کوئی قابل فخر تاثر نہیں۔ خاص طور پر بین الاقوامی ساکھ اور حمایت باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے اس سے بہت بہتر، واضع باہمی ہم آہنگی والی پا لیسی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اِس وقت گونا گوں مسائل کا سامنا ہے اور تمام مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ سب پر ہنگامی طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حوالہ سے بھی حکومت کی فوری ٹھوس توجہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی سطح پر دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی ، مالی اور باہمی تعلقات اندرونِ ملک انسانی حقوق کی صورتحال کیسی ہے ضر ور اثر انداز ہوتے ہیں۔ لارڈ ایلٹن کی طر ف سے اٹھائی جا نے والی بحث اْس کی ایک مثال ہے۔ کاش کہ پاکستان قائد اعظم والا پا کستان ہو تا پھر پا کستا ن کو کبھی ایسی ہزیمت نہ اٹھا نی پڑ تی۔دُعا ہے کہ پاکستان شاد و آباد رہے۔ آمین۔
تازہ ترین