• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کی تنہائیوں میں ایک ایف آئی آر یاد آ گئی۔

یہ آج سے قریب قریب 40برس قبل اسی شہر لاہور میں ’’حقیقی‘‘ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ اس ایف آئی آر کے بعد آج تک ہم جیسوں کی جھولیوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا بھرا ہوا لہو عدل کا متلاشی اور اس کی بے گور و کفن میت تدفین کے انتظار میں ہے۔ لاہور کی عدالت کے فیصلے نے مجھے اس مقدمہ قتل اور اس کی ایف آئی آر پر اہلِ قلم کے نوحوں، ہمالہ کے آنسوئوں اور عوام کی خاموش سسکیوں نے گھیر لیا ہے جنہیں منو بھائی نے اپنی آہوں میں لپیٹ لیا تھا۔

منو بھائی نے کہا تھا:

’’احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!

چوراں، ڈاکواں، قاتلاں کولوں

چوراں، ڈاکواں، پالاں بارے، کیہہ پچھدے او؟

ایہہ توہانوں کیہہ دسن گے؟ کیوں دسن گے؟

oooo

دِتی اے کدی کسے نے اپنے جرم دی آپ گواہی؟

کہیڑا پاندا اے اپنے ہتھ نال

اپنے گل وچ موت دی پھائی؟

oooo

کھوجی رسہ گیر نے سارے، کیہہ پچھدے او؟

اک دوجے دے جرم سہارے، کیہہ پچھدے او؟

ڈاکواں کولوں، ڈاکواں بارے، کیہہ پچھدے او؟

oooo

احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!

ساڈے گھر وچ ڈاکے وجے

ساڈیاں نیہاں پٹیاں گئیاں

ساڈے ویہڑے لاشاں وچھیاں

ساڈیاں عزتاں لٹیاں گئیاں

oooo

اسی نمانے اپنے زخمی ہتھاں دے نال

انصافاں دے بوہیاں نوں کھڑکاندے رہ گئے

الّاں، کانواں، کتیاں کولوں

اپنے زخم چھپاندے رہ گئے

oooo

درداں کولوں لئو شہادت

زخماں توں تصدیق کرائو

ساڈے ایس مقدمے دے وچ

سانوں وی تے گواہ بنائو

oooo

اور 40برس پہلے کی اس ایف آئی آر کا رسہ عباس اطہر نے اپنے کندھے پر رکھ کے لوگوں کو یاد دلایا:

’’اور سارے مظلوم تھے

کوئی بیمار تھا اور بستر سے باہر نہیں آ سکا تھا

کسی کے لئے گھر کا دروازہ صحرا میں کھلتا تھا

دہلیز پر دھوپ تھی

کچھ سلاخوں کے پیچھے خموشی سے بیٹھے ہوئے تھے کہ

رونا منع تھا۔

جو سر پر کفن باندھ کر، مشعلیں بن کر نکلے

وہ لمحوں میں جل بجھ گئے

اور ان کے لئے رونے والے بہت تھے

علم کے مقتل کی جانب سفر کرنے والے نہیں تھے

کہ اس کے سوا، ایک اس کے سوا

جو اندھیرے میں مارا گیا

سارے مجبور تھے، سارے بے بس تھے اور سارے مظلوم تھے‘‘

مزید یہ کہ:

دیکھو اسے

جس کے حسن اور جس کی صفت کے لئے

شاعروں نے ستاروں میں سو لفظ ڈھونڈھے تھے

پھر بھی انہیں اور کی جستجو تھی

کنوئیں میں لٹکتا ہے

اور اس کی گردن میں رسے کا پھندا ہے

اور کالے کپڑوں میں لپٹا ہوا اس کا سر ایک

جانب لٹکتا ہے اور پشت پر ہاتھ جکڑے ہیں،

پائوں میں رسی بندھی ہے

سلام اس کی بے چارگی پر

لیکن منصف عدل کے قتل کرنے سے باز نہ آیا، بالآخر شہد کی مکھیوں نے اس کی میت پر بین کئے۔ لاہور کی عدالت کے فیصلے نے مجھے چھتیس برس پہلے کی اس ایف آئی آر کی گریہ و زاری سامنے لانے پر بے بس کر دیا، ہم پاکستانی تو 4اپریل 1979کی شب کے پچھلے پہر سے چھپ چھپ کر اشک بار رہنے کے عادی ہو چکے۔ بھٹو خاندان کے تاریخی رازداروں بشیر ریاض اس گھڑی مرے پاس ہوتے، میں ان سے ضرور استفسار کرتا ’’جب لندن یہ خبر پہنچی، مرتضیٰ کہاں تھا؟ شاہنواز کیسا تھا؟ بی بی اور بیگم صاحب کی دوری آپ لوگوں نے کیسے سہاری تھی؟ صنم کہاں تھی؟ سو آج سے 04 برس پہلے بھی ایک ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔

آدھی رات کے ماحول میں تنہا بیٹھے جانے پر ایف آئی آر کیوں ذہن پہ مسلط ہو گئی؟ شاید بعض اوقات تاریخ انسان کو جونک کی مانند چمٹ جاتی ہے۔

چاہے ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ دوبارہ شروع ہو یا نہ ہو، یہ جونک ساری قوم، خصوصاً میری نسل کے لوگوں پہ دستک دیتی رہے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین