کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت کو اپنے ریجنل اسٹریٹجک پارٹنر امریکا پر اعتماد کیوں نہیں ہے، وکیل رانا ثنا اللہ فراز علی شاہ نے کہا کہ اے این ایف ایک ٹول کے طورپر استعمال ہورہا ہے،سینئر صحافی شہباز رانا نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کی بہت مقبول شخصیت ہیں اس وقت میں اور غالباً آپ نے پچھلی کئی دہائیوں میں دیکھا ہوگا کہ ان سے بڑی کوئی مقبول شخصیت پاکستانی سیاست میں نہیں آئی ہے جن کا اتنا بڑا فین کلب ہو۔ ہم سچویشن کو دیکھتے ہیں تو ہمارے پاس تین ایسی چیزیں ہیں جہاں ہم ان کی مقبولیت کو دیکھ سکتے ہیں، کیا وہ پاکستان کی اکانومی کو اور پاکستان کی معاشی پالیسیوں کو بہتر کرنے میں کامیاب ہوپائے ہیں یا نہیں۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورئہ امریکا مکمل ہوگیا ہے مگر وزیراعظم کے دورے کے بعد نئی بحث شروع ہوگئی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا اور بھارت آمنے سامنے آگئے ہیں، کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے مسئلہ میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست امریکی صدر سے خود کی ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد بھارت نے اس کی تردید کردی اور کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر سے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ پھر یہ کہا گیا کہ امریکی صدر نے یہ بات خود ہی کہہ دی ہوگی مگر اب اس کی بھی تردید آگئی ہے۔ وزیرخارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ شملہ معاہدے کی بات کرتے ہیں، bilateral کی بات کرتے ہیں تو پھر میز پر کیوں نہیں بیٹھتے۔ میز پر بیٹھنے سے وہ کتراتے ہیں، راہداریاں ہم کھولتے ہیں شک و شبہ آپ کرتے ہیں، اور کوئی تھرڈ پارٹی facilitation کی ضرورت ۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ان کے وزیراعظم نے انہیں کہا، آپ ان کے الفاظ تو سنیں، ہم نے تو نہیں کہا، یہ الفاظ ہمارے منہ سے نہیں نکلے، یہ اللہ کا کرم ہوا ہے، ایک تبدیلی جو میں دیکھ رہا ہوں، مجھے گیارہ ماہ ہوگئے ہیں اس قلمدان کو سنبھالے، جب میں آیا تو ایک دباؤ، گھٹن کاماحول تھا، الحمداللہ ان گیارہ مہینوں میں ہم کو آپریشن کی طرف بڑھے ہیں، پھر آپ دیکھیں ہندوستان کی پالیسی تھی کہ پاکستان کو دیوار سے لگانا ہے، isolate کرنا ہے، isolation کے بجائے invitation آگیا،پھر کشمیر پر وہ ایک ہی راگ الاپتے تھے ٹیررازم، جب کشمیر کی بات آئی ٹیررازم کی بات آئی، آج جو یو این کی رپورٹ آئی ہے جو ہاؤس آف کامنز کے کانٹیکٹ گروپ کی بات آئی ہے، جو برسلز کی ہیئرنگ ہوئی ہے اس میں آج وہ ٹیررازم ہے لوگ کہہ رہے ہیں ٹیررازم تو ایک امن چیلنج ہے اور اس پر پاکستان نے قیمت ادا کی ہے اور ہم تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں، دیکھیں ٹیرراز م کے ساتھ ساتھ ایک رخ بدلا جارہا ہے mediation کی طرف۔ پاکستان کا موقف ہم نے پیش کیا اور موقف صرف وائٹ ہاؤس میں پیش نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس کنٹرول کرتی ہے ری پبلکن پارٹی لیکن جو کانگریس ہے، ہاؤس ہے اس کو ڈیموکریٹک پارٹی کنٹرول کررہی ہے، ڈیمو کریٹک پارٹی میں نینسی پلوسی اسپیکر ہیں اور آپ کو پتا ہے کہ کتنی critical ہیں ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں لیکن ان کا رویہ بھی مثبت تھا۔ آپ دیکھئے پاکستان یو ایس کا جو ہمارا کانگریس کا کاکس تھا جو بالکل کھٹائی میں کیا بلکہ مردہ ہوگیا ، ہم نے ان گیارہ مہینوں میں اس میں جان ڈالی ہے، 41کے قریب کانگریس مین اس کے ممبر بن گئے ہیں اور پیشرفت آگے بڑھ رہی ہے اور ایک resolution آیا ہے آپ اس resolution کا مطالعہ تو کیجئے جس میں پاکستان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے، آپ پرا نگلیاں اٹھ رہی تھیں، آج آپ نے جو پیشرفت کی ہے جو پراگریس کی ہے اس کو acnowledge کیا جارہا ہے، الحمداللہ کسی حد تک میں یہ کہنے کی کوشش کررہا ہوں کہ ہم نے اپنے دو طرفہ تعلقات کو ری سیٹ کرنے کی میری جو خواہش اور عمران خان کی اور ہماری حکومت کی خواہش تھی اس پر اللہ کا کرم ہے، کچھ اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور پیشرفت ہوئی ہے۔بھارت سے متعلق ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے، ہم تیار ہیں بالکل، وہ bilaterally بات کرنا چاہتے ہیں ہم تیار ہیں ۔دیکھیں آج تو امریکاکی ان سے ہم سے بھی زیادہ قربت ہے، اس وقت تو امریکا کا ریجنل اسٹریٹجک پارٹنر بھارت ہے پاکستان نہیں ہے تو ان کو اپنے اسٹریٹجک پارٹنر پر اعتماد کیوں نہیں ہے، ایک طرف ایک بہت بڑا شفٹ ہوا ہے ایک ری الائمنٹ ہوئی ہے، ہم پھر بھی کہتے ہیں کہ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے کیس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے ،کشمیر کی صورتحال کو جانچتے ہوئے ہم بات کرنے کیلئے اعتماد سے تیار ہیں اور وہ جس کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر کہہ رہے ہیں وہ ان پر شک و شبہ کررہا ہے۔ہم نے کوئی ایسی کمٹمنٹ نہیں کی جو ہم پوری نہ کرسکیں۔ ہم نے کوئی ایسا سہانا خواب نہیں دکھایا جو پورا نہ ہوسکے۔ ہم نے دیانتداری سے پاکستان کا نکتہ نظر پیش کیا ہے اور ایمانداری سے کہا ہے کہ in good faith ہم چاہتے ہیں افغانستان میں امن وا ستحکام ہو کیونکہ ان کے امن و استحکام میں ہماری بھی بہتری ہے، ہم نے ان motions کو مسترد کردیا ہے جو پرانے strategic depth کے motions ہوا کرتے تھے ہم نے ان کو مسترد کردیا ہے، یہ افغانستان کے اندرونی معاملات ہیں جو افغانستان نے خود حل کرنے ہیں، ہم مددگار اور معاون ثابت ہوسکتے ہیں اور یہ تنہا ذمہ داری ہماری نہیں ہے، یہ shared responsibility ہے، کل کو وہاں کوئی پیشرفت نہیں ہوتی تو کیا پاکستان ذمہ دار ہے؟ ہرگز نہیں۔ سب کو اپنا کردار کرنا ہے، افغان حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، ریجنل قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، امریکا کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، پاکستان نے بحیثیت ایک معاون کے اپنا کردار ادا کرنا ہے تو ہم نے کوئی ایسی کمٹمنٹ نہیں کی جو نئی ہو یا جس سے ہم پر کوئی نیا بوجھ مسلط ہونے والا ہو۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ تو ان کی خواہش ہے کہ امن عمل آگے بڑھے اور اپنے منطقی انجام کو پہنچے، یہ ایک conversions ہوئی ہے جو پہلے امریکا کی پالیسی نہیں تھی، انہوں نے 18, 19سال ایک پالیسی اپنائی اور اس میں آپ نے دیکھا کس حد تک کامیابی ہوئی اور کس حد تک ناکامی ہوئی، اب ایک conversions ہوئی ہے، عمران خان صاحب تو یہ مسلسل کہتے رہے کہ کوئی ملٹری حل نہیں ہے، ایک پولیٹیکل سیٹلمنٹ کی طرف آیئے، اب ایک convesions ہوئی ہے اس میں ہم سے جو توقع کی گئی ہم نے میز پر بٹھادیا اور ایک empowered group کو سامنے بٹھادیا جو اب براہ راست ان سے گفتگو کررہا ہے، ہم بیچ میں نہیں ہیں خود بات کررہے ہیں، جو اعتماد کا فقدان ہے آپ خود بحال کیجئے، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جو افغانوں نے بیٹھنا ہے، انٹرا افغان ڈائیلاگ ہے اس میں ہم تو ٹھیکیدار نہیں ہیں، ہم بھی ان کو کہہ رہے ہیں بیٹھئے آپ کا ملک ہے، آپ کا مستقبل ہے، آپ کا امن ہے جس کا یقیناً ہمیں فائدہ ہوگا لیکن فیصلہ آپ نے کرنا ہے ہم نے نہیں کرنا۔ ہم ایک ماحول بنارہے ہیں۔ ہم ایک مددگار کا، معاون کا کردار ادا کررہے ہیں اور in good faith کررہے ہیں۔ امن کیلئے سب کو تعاون کرنا ہوگا۔ آپ نے دیکھا کہ واشنگٹن آنے سے پہلے بیجنگ میں ایک اجلاس ہوا، اس اجلاس میں امریکا ، روس، چین اور پاکستان کی نمائندگی تھی، ایران کو بھی دعوت دی گئی مگر ایران آیا نہیں، ایران کا بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ایران چونکہ افغانستان کا پڑوسی ہے اس خطے کا اہم ملک ہے، پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ وہاں بھی کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہو جس کی وجہ سے افغانستان کے امن کے پراسس میں کوئی رخنہ پیدا ہو، اگر کوئی مسائل ہیں تو وہ گفت و شنید سے، ڈپلومیٹک اپروچ سے حل ہونے چاہئیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان واپس آرہے ہیں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ابھی بھی امریکا میں ہیں، گزشتہ روز انہوں نے امریکا میں اہم ملاقاتیں کیں۔ ایک مثبت دورہ اس کو ہر لحاظ سے کہا جاسکتا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ جو تسلسل ہے امریکا کی طرف سے مثبت پیغامات کا وہ بھی نظر آئے گا، نہ کہ کچھ عرصہ میں اگر افغانستان میں ان کی توقعات کے مطابق نتائج نہیں آتے تو پاکستان کے اوپر ماضی کی طرح پوری ذمہ داری ڈال دی جائے۔وزیراعظم عمران خان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں مقبول ہیں، انہیں پسند بھی کیا جاتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے جو امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں۔