• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سکندراعظم ،ہٹلر اور نپولین کا نام ذہن میںآتے ہی قرطاس ِقلب ونظر پر طاقت رقصاں ہوجاتی ہے ،یہ طاقت دنیا کو زیر کرنے کی خواہش تلے اس فلسفے سے عبارت ہے کہ جنگ اورمحبت میں سب کچھ جائز ہے۔نپولین جب فتوحات پر فتوحات کے بعد ایک مفتوحہ علاقے میں خلعت نشین ہوتاہے توحسبِ دستور مقامی معززین ملنے آتے ہیں،تاریخ شاہد ہے کہ بشری و اخلاقی کمزوریوں کے باوصف ایسے حکمران باکما ل ہوتے تھے۔نپولین کے متعلق مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں’’ اٹھارہویں صدی میں نپولین بونا پارٹ کا ظہور انسانی الوالعزمی کا ایک عظیم ظہور تھا۔ شاید ہی یورپ کے کسی انسان کی نسبت دنیا نے اس قدر کہا اور سنا ہو جس قدر اس غیر معمولی انسان کی عجیب و غریب دماغی قوتوں کی نسبت کہہ سن چکی ہے ‘‘تو ہم عرض کررہے تھے کہ یہ دانا فاتح ایک بڑے میدان میں بنائے گئے اونچے اسٹیج پر بیٹھے ہیں ،پنڈال کے ایک طرف فاتح فوج کے سالار ہیں،اور دوسری جانب مقامی معززین نپولین کی خدمت میں حاضری کے بعد بیٹھ جاتے ہیں۔

اس دوران شرکا ایک منظردیکھتے ہیں،ایک گھڑ سوار استقبالیہ گاہ کے قریب اُترتاہے ، اُسکا انداز یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ کسی بڑی حیثیت کامالک ہے ،بڑی بڑی مونچھیں،زرق برق لباس وپوشاک ،اور شاہانہ و بے باکانہ چال،اُٹھتاہواہر قدم ایسا،کہ جیسے زمین بھی ساتھ چل رہی ہے،پھر اسٹیج کی سیڑھیاںاُسکی دہشت کی زیربار آجاتی ہیں، مگر یہ کیا !! جیسے ہی وہ مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھاتا ہے،نپولین شرارے پھوٹتے اُس کے رخسار پر یکے بعد دیگرے تھپڑ رسید کرتاہے،یکایک پہاڑ جیسی شخصیت ریزہ ریزہ بکھرنے لگتی ہے ،نپولین ہاتھ کے اشارے سے اُسے آخری نشست پر بیٹھنے کا حکم دیتاہے، اسی ساعت معمولی لباس پہنے ایک نحیف ونزار آدمی اسٹیج کی جانب رواں ہے، نپولین کی جیسے ہی نظر پڑتی ہے،فوری اسٹیج سے اُتر کر تیز قدموں سے اُس کی جانب بڑھتاہے،شرکا جوابھی روا رکھے گئے سلوک سے مبہوت ہیں،دیکھتے ہیں کہ نپولین اُس مردِ ناتواں کوگلے لگاتا ہے اور پیروں سے زمین پر نشان بنانے والے اس شخص کے ساتھ ساتھ چلتا اوراُسے اسٹیج پر ساتھ بٹھالیتا ہے۔اس ہوش ربا منظرنامہ کا ادراک کرتےہوئےفرانس کا یہ سالار اعظم گویا ہوتاہے۔جو شخص ابھی ابھی بے آبروہوا وہ ایک خو د ساختہ لیڈر ہے،اورجو میرے پہلو میں بیٹھا ہے یہ خو د تو کمزور لگتاہے مگر اس کی پشت پر ایک مضبوط قوم ہے۔ 1821میں نپولین کے انتقال سے اب تک کی ایک صدی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ طاقت ور ممالک دوسرےملک کے سربراہ کے لباس و چال ڈھال سے زیادہ اُس کی ریاست پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ درست ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکا کامیاب رہا،لیکن کامیابی کا پیمانہ زیر بحث آنے والے معاملا ت سے کہیں زیادہ وزیراعظم کے شلوار قمیض،واسکٹ اور پشاوری چپل قرار دیا گیا ہے۔بلائیں اُس شان وانداز کی لی جارہی ہیں جو عمران خان صاحب نے اختیار کیا۔ہمارے سماج کی اکثریت احساس ِتفاخر میں مبتلا ہے اور اس کے اظہار کیلئے وہ تمام ایسے ذرائع استعمال کرتی ہے جن سے اُن کی انفرادیت نمایاں ہوسکے،یہی ہماری قومی نفسیات ہے مگر ،حضرت اقبال یاد دلاتے ہیں

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں

ماہرین نفسیات کے مطابق یہ طرز عمل کمزور ی کی علامت ہے۔اس کا سب سےبڑا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی اہمیت شخصیات کی باڈی لینگویج میں دیکھنے لگے ہیں۔پاکستان کے ماسواشاید ہی کسی اور ملک میں یہ پیمانہ ہو۔کیا ہی اچھا ہو کہ اقوام عالم کی طرح ہم میں بھی یہ اعتماد ہو کہ پاکستان کو کوئی چاہے بھی تو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

یہ درست ہے کہ ایک سربراہ مملکت اپنے فہم وفراست یا تجربے سےجہاں اپنا مقدمہ بہتر طور پر پیش کرسکتاہے وہاں وہ مخاطب کو قائل بھی کرسکتاہے۔تاہم ہمیں اس خام خیالی سے باہر آنا پڑےگاکہ امریکا کو مر عوب کرنے کیلئے نمائشی اقدامات سب سے اہم مرحلہ ہوتاہے۔ اس دورے میں بلا شبہ اہم معاملات پر فیصلے ہوئے ہیں، کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بڑی پیش رفت ہے،لیکن یہ تمام جیسےوزیراعظم کی ’’پشاوری چپل‘‘ تلے دب گئےہیں ۔ حضرت اقبال نےکہا تھا۔

بیچارہ پیاد ہ تو ہے اک مُہرۂ ناچیز

فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

عالمی سیاست روزاول تا امروز شاطرانہ چالوں سے تر رہی ہے۔بحرِ ظلمات کے مسافر جانتے ہیں کہ ہر آنے والا لمحہ ناخداکی آزمائش کا سامان کئے رکھتاہے، خلیج کے پانی کے گرم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ،دورہ امریکا پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کا کہنا ہے ہرحکومت امریکی دوستی پرشادیانے بجاتی رہی لیکن امریکہ نے ہمیشہ ہمارے حکمرانوں کو استعمال کیا۔ریاضت کوش کہتے ہیں امریکی دورے سے جتنا ملا ہو سمیٹ لو،لیکن ایسے عالم میں شاطر کی چال پر بھی نظر رہے ، حضرت اقبال بھی یہی کہتے ہیں۔

دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا

مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب

تازہ ترین