لندن : ایوا سازلی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈالر کی قدرکو کم کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی قدر میں استحکام آرہا ہے۔
امریکی فیڈرل ریزرو کے پالیسی سازوں نے اجلاس کےگزشتہ ہفتے شائع ہونے والے منٹس میں نشاندہی کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے شرح سود میں کمی کیلئے لابی کی ہے توقع ہے کہ گرین بیک اس کو سراہنا شروع کردیں۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے زرمبادلہ کی مارکیٹوں کے حوالے سے اپنے بیانات میں نرمی کا اظہار نہیں کیا ہے۔حالیہ ہفتوں میں امریکی صدر نے میزبان ممالک پر کرنسی کو حسب منشاء چلانے کا الزام لگایا اور ان پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دی،فیڈرل ریزرو کے سربراہ جے پاؤل پر شرح میں کمی کیلئے دباؤ ڈالنے کے لیے ڈالر کے استحکام کا حوالہ دیا ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے مئی میں آئرلینڈ،اٹلی اور جرمنی کو اس کی کرنسی کو حسب منشاء چلانے والوں کی نگرانی والی فہرست میں شامل کیا،ان ممالک کو چین، ویت نام اور سنگاپور کے ساتھ رکھا گیا ہے، اگرچہ کہ یہ ممالک یوروزون کا حصہ ہیں اور مالیاتی پالیسی پر ان کا براہ راست کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
اس عشرہ میں پہلی بار مسابقتی کرنسی کی قدر میں کمی کی ، بیگر تھائی نیبر( کرنسی کی قدر میں کمی جو ملکی افراط زر کو کم لیکن جن ممالک سے درآمد کررہا ہے ان کی مصنوعات کو مزید مہنگا کردے) حکمت عملی واپس آرہی ہے۔
یو بی ایس ویلتھ مینجمنٹ کے برطانوی انویسٹمنٹ کے سربراہ جیوف یو نے کہاایسا لگ رہا ہے کہ ہم وسیع پیمانے پر مالیاتی پالیسیوں کی جنگ ہوتی دیکھ رہے ہیں اور کرنسی کا مسئلہ اس کی علامات میں سے ایک ہے۔
اس تجزیہ کار نے کہا کہ یہ بنیادی غلط فہمی سے پیدا ہوا کہ کرنسی مارکیٹ کو کون چلاتا ہے۔ مستحکم ڈالر امریکا کے دیگر معیشتوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا نتیجہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی شرح سود دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے جو سرمائے کے بہاؤ کو حرکت میں لارہا ہے۔
نیویارک میں اوپینمیررڈنڈ میں ایک سینئر پورٹ فولیو مینجر الیسیو ڈی لانگس نے کہا کہ امریکی پالیسی ساز اس وقت شرح سود بڑھانے کے قابل تھے جب امریکا سے باہر ترقی کمزور تھی،جس نے ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر میں استحکام خلاف قاعدہ یا انوکھا نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالا ہے عالمی معیشت پر کرنسی کی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا تھا ، لہٰذا ہم تجارتی معاہدوں پر مذاکرات کی مستقل حالت میں ہیں۔
کولمبیا تھریڈ نیڈل کے کرنسی اور ریٹ کے سینئر تجزیہ کار ایڈ ال حسینی نے کہا ہے کہ امریکی خزانے کی رپورٹ میں آئرلینڈ اور اٹلی کی شمولیت کو تقریباََ بدمعاملگی میں شمار کیا جائے گااور یہ کہ رپورٹ میں کچھ احمقانہ مواد شامل ہے، حتیٰ کہ چین اب مزید اپنی کرنسی کو واضح طور پر حسب منشاء نہیں چلارہا ہے۔
ال حسینی نے مزید کہا کہ اصل مسئلہ رینمینبی ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ چین کے مرکزی بینک نے اپنی کرنسی کے معاملات میں مداخلت کی یا اسے حسب منشاء چلانے کی کوشش کی، لہٰذا وائٹ ہاؤس کی زبان دوبارہ انتخابات کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتی ہے۔
امریکی خزانے کے ایک تجربہ کار اور امریکی تھنک ٹینک او ایم ایف آئی ایف کے سربراہ مارک سوبل نے کہا کہ اگرچہ ایک دہائی قبل چین پر سازشی انداز میں کرنسی کو حسب منشاء چلانے کا لیبل لگانے کا معاملہ تھا لیکن اب ایسا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔
امریکی خزانے کی حالیہ دو سالانہ رپورٹس میں ایشیائی طاقتور ملک چین کو تین معیاروں،امریکا کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں نمایاں سرپلس، کرنٹ اکاؤنٹ کا اہم سرپلس،اور غیرملکی زرمبادلہ مارکیٹ میں مستقل یک طرفہ مداخلت، میں سے صرف ایک میں نشاندہی کی انہوں نے کہا کہ وہ اس لیبل کا کافی حد تک مستحق نہیں تھا۔
سنگاپور میں نیٹ ویسٹ مارکیٹ کے ساتھ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے ماہر میکلینلین نے کہا کہ رینمیبنی کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات 2014 تک طاقتور تھے لیکن اس کے بعد سے چین کے غیرملکی کرنسی ہولڈنگز کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پیپلز بینک آف چائنا ڈالرز فروخت کررہا ہے نا کہ صرف اپنے استعمال کیلئے جمع کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کا رینمینبی تجارتی جنگ کا مجروح یا ہلاک ہونے والا سپاہی ہے ، ہتھیار نہیں۔
ایک عشرہ قبل کی صورتحال سے قابل ذکر واپسی کا عمل ہورہاہے، جب جغرافیائی سیاسی حلقوں میں آخری بار کرنسی کو حسب منشاء چلانے کے رجحان میں اضافے نے سر اٹھایا۔
بعدازاں، مالیاتی بحران کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو کی جانب سے جارحانہ پالیسی کو نرم کرکے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو بحران میں ڈال دیا۔
اس وقت برازیل جیسے بری حالت کے شکار ممالک کیلئے امریکی پالیسی سازوں نے کچھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا، دیگر معیشتوں پر کمزور ڈالر کے کیا اثرات مرتب ہوئے ، سے قطع نظر سہولت کے اقدامات کو آگے بڑھایا جیسا کہ تیزی سے ابھرتی مبادلہ کی شرح نے ان کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ہڑپ کرلیا۔
2010 تک برازیل،جاپان، جنوبی کوریا،تائیوان اور چین میں مرکزی بینک اپنی کرنسیوں کی قدر مستحکم کرنے کیلئے باقاعدگی سے کوشش کررہے تھے، برازیل کے وزیر خزانہ گوئیڈو مانتگا نے اسو قت اعلان کیا کہ دنیا بین الاقوامی کرنسی کی جنگ کے وسط میں ہے۔
اس کے برعکس آج کی صورتحال میں امریکا خود کو مارکیٹ کے متاثرین کے طور پر پیش کررہا ہے۔
کار کٹ جیکس نے کہا کہ یہ کرنسی کی ایک مختلف جنگ ہے جب امریکا سمجھتا ہے کہ وہ ہار رہا ہے۔
شرح سود میں کمی اور پابندیوں کے علاوہ دیگر حربے بھی ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ آزماسکتے ہیں۔
پیٹرسن انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی اقتصادیات کے جوزف گیگون اور فریڈ برسٹین سمجھتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس ازخود کرنسی مارکیٹ کے ذریعے انتقام پر غور کرے گا۔ اگر جی 20 ممالک اس کرنسی کی قدر میں کمی کے لیے مداخلت کرتے ہیں ، تو امریکا مارکیٹ میں مداخلت کی تلافی کیلئے صف آرائی کرسکتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر سوئٹزرلینڈ نے فرانک کی فروخت کے ذریعے اپنی کرنسی کو کمزور کرنے کی کوشش کی ،توامریکی خزانہ سوئس کرنسی کی اتنی ہی رقم خریدنے کیلئے آگے آسکتا ہے اور مداخلت کو منسوخ کردے۔جوزف گیگون نے کہا کہ امریکی خزانے کے مقابلے میں دنیا میں کسی میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
ڈوئچے بینک میں ماہر تزویر کار جارج سرویلوس نے کہا کہ ڈالر میں مداخلت بےنظیر نہیں ہوگی ، کارٹر،بش اور کلنٹن کے تحت تمام سابق انتظامیہ نے مسلسل اور معنی خیز مداخلت اختیار کی۔
جارج سرویلوس نے کہا کہ گزشتہ عشروں میں اس کا رواج آتا جاتا رہا ہے۔
اگرچہ، کارروائی کرنے کے حوالے سے کچھ تجزیہ کاروں کو شک ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا متفقہ مؤقف نہیں ہے۔
جوزف گیگون نے کہا کہ وزارت خزانہ کچھ نہ کرنے کے لیے وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔تاہم انہوں نے مزید کہا کہ آیا وائٹ ہاؤس انہیں کارروائی کرنے پر مجبور کردے تو یہ ایک الگ سوال ہے۔