اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاہے کہ ججوں کو کسی بھی قسم کے دبائو میں نہیں آنا چاہیے، کئی ایسے فیصلے کیے جن میں جان کا خطرہ بھی تھا، کئی مقدمات میں سیاسی اور کئی میں مذہبی معاملات بھی پیش نظر تھے لیکن اللہ کو حاضر ناضر جان کر جو صحیح لگا وہ فیصلہ کیا ہے، ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے سے جو سکون ملتا ہے دنیا میں اسکا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔پیرکے روز ماڈل عدالتوں کے ججوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں روز اول سے ہی اپنی عدالت میں مقرر کئے گئے تمام مقدمات کا فیصلہ کر کے ہی اٹھتا ہوں، میری عدالت میں مقدمات صرف کارروائی کیلئے نہیں فیصلے کے لئے مقرر ہوتے ہیں،ہمیں بطور جج عدالت میں فیصلے کرنے چاہئیں صرف دن نہیں گزارنا چاہیے، کیس کا فیصلہ کرنا ایک امانت کی بات اور ایک انصاف کی بات ہے ،جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو اور امانت کیساتھ انصاف لوٹا دو،میں مقدمات کو سننے سے زیادہ انکے فیصلے میں دلچسپی رکھتا تھا،کیس کے دلائل کورٹ روم میں بیٹھے سب لوگ سنتے ہیں اورہم سے فیصلہ کی امید کی جاتی ہے، ہم وکلا ء کو دلائل سے راغب کر نے کا کہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہماری جانب سے فوجداری مقدمات نمٹانے کو ترجیح دینے اور نظام قائم کرنے کی وجہ سے آج سپریم کورٹ اسلام آباد رجسٹری مین صرف 41 کریمنل اپیل باقی رہ گئی ہیں یہ بھی آئندہ ہفتے تک ختم ہو جائیں گی جبکہ لاہور برانچ رجسٹری میں 91 اورپشاور میں 5 زیر التواء ہیں جبکہ کوئٹہ برانچ رجسٹری اور کراچی برانچ رجسٹری میں فوجداری اپیلیں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں۔انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ میں انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں، جب ہر چیز پر قدرت رکھنے والا آپ سے محبت کرے، تو پھر کس چیز کا ڈر ہے؟ بعد ازاں انہوں نے صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عرفان صدیقی والے معاملے پر آئی جی اسلام آباد کو بلا کر کہا ہے کہ آپ نے عدلیہ کو بہت شرمندہ کروایا ہے، تاہم انہوں نے اتوار کی چھٹی کے باوجود عرفان صدیقی کی ضمانت ہونے کے حوالے سے جواب دینے سے گریز کیا۔