ماں کا دودھ نومولود کے لیے قدرت کی طرف سے ایک اَن مول تحفہ ہے۔ دینِ اسلام میں تو خاص طور پراس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مائیں اپنے بچّوں کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔قدیم مصر، یونان اور روم میں مائیں عام طور پر بچّوں کو اپنا ہی دودھ پلایا کرتی تھیں،جب کہ شاہی خاندان کی مائیں کسی دایہ کا اہتمام کرتیں،جنہیں"Wet Nurse"کہا جاتا تھا۔ بعد میں یورپ کے امیر گھرانوں کی مائیں بچّوں کو دایہ سے دودھ پلوانے لگیں۔ کئی ترقّی پذیر مُمالک میں ایک ماں کے کئی بچّوں کو دودھ پلانے کا رواج عام تھا۔پھر1748ء میں ایک تحقیق کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے بچّوں کی اموات میں خاصی کمی لائی جا سکتی ہے۔اس کے بعد ہی اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپ کے امیرگھرانوں کی ماؤں نے بچّوں کو دایہ سے دودھ پلوانے کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز کیا، جب کہ بعض مُمالک میں قانوناً اس بات پر زور دیا گیا کہ مائیں بچّوں کو اپنا ہی دودھ پلائیں۔ طبّی ماہرین نے ماں کے دودھ کو کرشماتی خصوصیات کا حامل مشروب قرار دیا ،جونہ صرف امراض سے محفوظ رکھتا ہے، بلکہ ذہانت میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اُسی دَور میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا، جو دودھ پلانے کے عمل کو جانوروں کے عمل سے تشبیہہ دیتا تھا۔ 1950ء کی دہائی تک نومولود کو ماں کا دودھ پلانا اَن پڑھ اور پست طبقے کا رواج مانا جاتا۔ حتیٰ کہ بریسٹ فیڈنگ کو اولڈ فیشن، بلکہ قابلِ نفرت تک خیال کیا جاتا۔ بعد ازاں 60 کی دہائی سے بتدریج پڑھی لکھی اور اونچے خاندان کی ماؤں میں نومولود کو دودھ پلانے کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔ بریسٹ فیڈنگ کی افادیت اُجاگر کرنے کے ضمن میں عالمی ادارۂ صحت اور کئی این جی اوز مل کر کام کررہی ہیں، تاکہ حاملہ خواتین خصوصاً 25سال سے کم عُمر ماؤں کو نومولود کو اپنا دودھ پلانے کی جانب راغب کیا جاسکے ۔
ماں کا دودھ بچّے کی پیدایش کے وقت گاڑھا ہوتا ہے، جسے طبّی اصطلاح میں کلوسٹرم(Colostrum)کہاجاتا ہے۔پیدایش سے لے کر اگلےدو دِن تک یہی گاڑھا دودھ نومولود کی غذا بنتا ہے،جو بعد میں قدرے پتلا ہوجاتا ہے۔تاہم گاڑھا ہونے کے باوجویہ عام ددودھ کی نسبت آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے۔ نیز، قبض کُشا ہونے کی وجہ سےبچّے کو بار بار پاخانے آتے ہیں،جوباعثِ تشویش نہیں ،کیوںکہ جسم سے bilirubin کا اخراج ہوتا ہے،جس کے نتیجے میںبچّہ یرقان کا شکار نہیں ہوتا۔اسی بریسٹ فیڈنگ سےبچّے میں بائیوکیمیکل ری ایکشن کا آغازہوتا ہے،جس کی وجہ سے اینزائمز، ہارمونز، گروتھ فیکٹرزاور امیونٹی پیدا کرنے والے مادّے جنم لیتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں ایسے کیمیائی مادّے بھی پائے جاتے ہیں، جو بچّے کی آنکھوں اور دماغ کی نشوونما میں اہم کردار کرتے ہیں۔ طبّی ماہرین کے مطابق کوئی بھی بچّہ فوراً دودھ پینا شروع نہیں کرتا، پہلے وہ ماں کی آنکھوں میں دیکھتا ہے اور پھر کچھ دیر بعد دودھ پیتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بچّے اور ماں کے درمیان رابط،تعلق کا یہ دورانیہ آنے والے وقت میں ماں اور بچّے کی جذباتی وابستگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین اس بات کی سفارش کرتے ہیں کہ پیدایش کے فوراً بعد سب سے پہلےماں بچّے کو اپنا دودھ پلائے، بعد میں نومولود کا وزن، جسمانی پیمایش اور نہلانے جیسے دیگر امور انجام دئیے جائیں۔ قبل از وقت پیدایش یا کسی اور سبب بچّے کو ماں کا دودھ پینے میں دشواری پیش آئے، توفوری طور پر معالج سے مشورہ کیاجائے۔ عام طور پر پہلے چار ہفتوں کے دوران بچّہ ایک سے دو گھنٹے بعد دودھ پیتا ہے،کیوں کہ معدہ حجم میں چھوٹا ہوتا ہےاور اس میںصرف5ملی لیٹر دودھ کی گنجایش ہوتی ہے۔ تین دِن تک یہ مقدار بیس تا تیس ملی لیٹر تک جا پہنچتی ہے اور ساتویں دِن ساٹھ ملی لیٹر ہوجاتی ہے۔ نوزائیدہ کو ایک مرتبہ دودھ پلانے کا دورانیہ20 سے35منٹ پر محیط ہونا چاہیے اورکوشش کی جائے کہ بچّہ پوری طرح دودھ پیے، بصورتِ دیگر دودھ بننے کا عمل سُست پڑجاتا ہے۔
بریسٹ فیڈنگ کے بے شمار فوائد ہیں۔مثلاً بچّے کی صحت مند ی، بیماریوں سے تحفّظ، ہڈیوں کی مضبوطی، پیدایش کے بعد نوزائیدہ کی موت کے امکانات میں کمی، زچگی کے بعدہونے والی پیچیدگیوں کا بروقت تدارک،ماں کے غیر ضروری وزن میں کمی، ممتا کی قوّت میں اضافہ، خاندانی منصوبہ بندی میں معاونت اوربازار کے دودھ یا خوراک کےغیر ضروری اخراجات کی بچت وغیرہ ۔ بعض اوقات ماں کو مناسب خوراک نہ ملنے، کسی حادثے، بیماری، ذہنی دباؤ، نقل مکانی یا دورانِ زچگی ماں کی موت کی وجہ سے بچّہ ماں کے دودھ سے محروم رہ سکتا ہے، لیکن اگر کوئی ماں کم علمی یا مصروفیات کے سبب بچّے کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تو یہ عمل بچّے اور خود اس کی اپنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یاد رکھیے، ماں کا دودھ پینا بچّے کا بنیادی حق ہے،جس سے اسےمحروم رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اگرماں کسی دفتر، فیکٹری یا کسی اور جگہ کام کرتی ہے، تو اُسے دِن میں چار سے پانچ بار بچے کو دودھ پلانے کے لیے وقت فراہم کیا جائے اور دودھ پلانے کادورانیہ اس کے کام کے اوقات میں شمارہو، تاکہ کوئی نومولود دودھ پینےسے محروم نہ رہ جائے۔ اس ضمن میں کئی مُمالک میں قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں کم علمی کی وجہ سے ان معاملات پر کچھ خاص پر توجہ نہیں دی جاتی، لہٰذا اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔