• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

مہمانانِ گرامی: مروہ، سرینہ خان، حمزہ مغل، حیدر

ملبوسات: امجد عظیم

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

سرفراز شاہد کا ایک خُوب صُورت شعر ہے ؎ ’’سرورِ جاں فزا دیتی ہے آغوشِ وطن سب کو… کہ جیسے بھی ہوں بچّے ماں کو پیارے ایک جیسے ہیں‘‘۔ واقعی بچّے جیسے بھی ہوں، نیک، بَد، اچھے، بُرے، خوش شکل، کم شکل، گورے چٹّے، کالے پیلے، صحت مند، کمزور حتیٰ کہ فرماں بردار یا نا فرمان بھی، ماں کا دل سب کے لیے یک ساں دھڑکتا ہے۔ کسی پر ذرا سی آنچ آئے، کانٹا بھی چُبھ جائے، ماں کی پِیڑ، تکلیف، درد سوا ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں اولاد کہہ دے ؎ ’’اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے… دن بھر کی مشقّت سےبدن ٹوٹ رہا ہے‘‘ تو پھر ماں کی نرم و گرم آغوش کا سرورِ جاں فزا بھی کسی کے لیے کم، زیادہ نہیں ہوتا۔ اُس کا ممتا سے لبریز وجود، میلی اوڑھنی کی چھاؤں، گرم لوئی کی مہک، آنکھوں سے چھلکتی بے پاں چاہت و محبّت، ہونٹوں پہ سجے دُعاؤں کے پھول اور بہت فراخ و کشادہ جھولی اپنی اولاد کے معاملے میں ہر قسم کی جمع و تفریق سے بالاتر ہوتی ہے۔ نو ماہ کوکھ میں اُٹھائے اٹھائے پھِر کے، دنیا کی اذّیت ناک ترین تکلیف جھیل کے جنم دینے والی ماں ہو یا عُمر بھر گود میں سنبھالے رکھنے، حتیٰ کے موت کے بعد بھی پناہ دینے والی ’’دھرتی ماں‘‘ دونوں کے خمیر، سرشت و فطرت، خصلت و خاصیّت، طینت و طبیعت میں رتّی بھر بھی فرق نہیں۔ جنم دینے والی مجسّم ممتا، مہرو وفا کی پُتلی کبھی تنہا چھوڑتی، بے وفائی کرتی ہے اور نہ ہی آغوشِ وطن کہ ؎ ’’پھر اُس کو مَر کے بھی خود سے جُدا ہونے نہیں دیتی… یہ مٹّی جب کسی کو اپنا بیٹا مان لیتی ہے۔‘‘ البتہ ’’ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے، بابل اساں اُڈ جاناں‘‘ ؎ ’’ایسا لگتا ہےکہ جیسےختم میلہ ہوگیا… اُڑ گئیں آنگن سے چڑیاں گھر اکیلا ہوگیا‘‘ اور ؎ ’’طاق میں جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں… چل دئیے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں‘‘ کے مثل اولاد ہی ماں کو چھوڑ جائے، تو چھوڑ جائے، ماں اولاد کو کبھی نہیں چھوڑتی۔

اور سچ تو یہ بھی ہے، جیسے جنم دینے والی ماں کی ایک رات کا حساب چُکتا نہیں ہوسکتا، ویسے ہی دھرتی ماں کے قرض کی ادائیگی بھی آسان نہیں۔ وہ ہے ناں ؎ ’’ہم خون کی قسطیں تو بہت دے چُکے لیکن… اے خاکِ وطن! قرض ادا کیوں نہیں ہوتا‘‘ اور ہم تو پھرقسطیں بھرتے ہیں، تو بہت سا سُکھ چین بھی پاتے ہیں۔ ماں کے دبیز آنچل تلے، نرم و گداز آغوش کی چھپّر چھایا میں سارے سرد و گرم موسموں سے تحفّظ پاتے، خُوب لمبی تان کے سوتے ہیں۔ ہمیں کم از کم یہ یقین تو ہے کہ ؎’’ہر ایک راہ، ستارہ فشاں ہے میرے لیے… میرے وطن کی زمیں، آسماں ہے میرےلیے‘‘ ذرا اپنے اُن کشمیری، فلسطینی اور شامی بہن بھائیوں کا بھی تو سوچیں، جن کی اپنی ہی زمین اُن پر تنگ کر دی گئی ہے۔ وہ محسن نقوی نے کہا تھا ناں کہ ؎ روزاِک غم کا مہورت کیوں ہے اور ؎مِری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں، تو ان مظلوموں کی تو برس ہا برس سے قسطیں بھر بھر کے بھی نہ کہیں کوئی شنوائی، داد رَسی ہے، اور نہ ہی کبھی بنیے کےسودی قرض جیسی رقم کی ادائیگی مکمل ہونے کی کوئی اُمید۔ ایک طویل عرصے سے امیدو بیم کی کیفیت، آس و نراس کے عالم ہی میں جی رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں کہ ؎ کچھ علاج اس کا بھی، اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں ۔یا یہ ؎ زخم بے رَفو سا ہے، درد لا دوا سا ہے۔ سو، قدر کیجیے، اس ارضِ پاک، مادرِ وطن، پاک دھرتی، ماں مٹّی، سبز ہلالی پرچم کی کہ اِک اس کے ہونےہی سے تو دنیا میں ہمارا ہونا کوئی معنی، وجود رکھتا ہے۔ ہماری بھی اِک شناخت، پہچان ہے۔ دنیا کے نقشے پر ہم بھی کہیں روشن، چمکتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں لوگ، ہماری تاریخ، تہذیب و ثقافت، اقدار و روایات، نام و مقام، سبز پرچم اور سبز پاسپورٹ کے سبب جانتے پہچانتے تو ہیں۔ وگرنہ غلام قوموں کی کئی نسلوں کے غلام، گم نام ہی مر جانے کی کہانی کوئی ایسی بھی اَن ہونی، انوکھی نہیں۔ صد شُکر کہ ؎ قائد کی جستجو سے وطن مل گیا ہمیں… سینچا ہوا لہو سے چمن مل گیا ہمیں… ایسا لگا کہ سارا گگن مل گیا ہمیں… جاں سے ہے جو عزیز، وہ تَن مل گیا ہمیں۔ یاد رکھیے، اس مادر گیتی، ارضِ پاک کا مرتبہ و مقام اِک ’’تختہ خاک‘‘ سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے کہ یہ وطن ہمیں تھالی میں رکھ کے پیش نہیں کیا گیا، اسے ہمارے آباؤاسلاف نے اَن گنت، بے مثل و بے مول قربانیاں دے کر، جرأت و شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کر کے، دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر اور ایک طویل ترین معرکۂ کفرو اسلام کے بعد حاصل کیا ہے۔ اب کوئی خواہ ’’پُرانے پاکستان‘‘ کا داعی و نام لیوا ہے یا ’’نئے پاکستان‘‘ کا عَلم بردار، بہ قول راغب مراد آبادی ؎ ’’قائدِ اعظم کی کہتے ہیں امانت ہم جِسے… وَرثہ یہ اے مہرباں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے… وقت کا ہے یہ تقاضا متحد ہو جائیں ہم…کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے…سوچ تو گلشن کی بربادی کا کیا ہووے گا حال… شاخِ گُل پر آشیاں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے… آبِ راوی ہو کہ آبِ سندھ، ہے سب کے لیے… دامنِ موجِ رواں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے…ہیں محبّت کے نقیب اقبال و خوشحال و لطیف… ان کا فیضِ بے کراں تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے‘‘۔

اس بار چوں کہ عید الاضحیٰ اور عیدِ آزادی آگے پیچھے ہی چلی آرہی ہیں، تو ہم نے سوچا، کہ کیوں نہ دونوں کا ایک ساتھ اہتمام کرنے کے بجائے ماہِ اگست کے آغاز ہی کے ساتھ ’’جشنِ آزادی‘‘ کی تیاریاں شروع کر دی جائیں۔ یوں بھی پاکستانی قوم تو کسی دن، تہوار، موقعے ہی کا انتظار کر رہی ہوتی ہے اوربس جشن شروع۔ اِدھر ماہِ آزادی کا آغاز ہوا نہیں، یک سر پورے مُلک کی فضا، آب و ہوا ہی بدل گئی۔ ہر سُو سبز و سفید رنگ کی گویا لہریں بہریں ہوجاتی ہیں۔ گھروں، عمارتوں، گاڑیوں کی چھتوں پر قومی پرچم لہراتے، کاغذی جھنڈیاں بہار دکھلاتی، شمعیں، چراغ، دیے جھلملاتے سے نظر آنے لگتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر چار سُو بھارتی گانوں کی بجائے روح پر ور ملّی نغموں کی جو صدائیں گونجنے لگتی ہیں تو جیسے مَن کے تارے جھنجھنا سے اُٹھتے ہیں۔ چوں کہ اگلا شمارہ، ہمارا ’’عید الاضحٰی ایڈیشن‘‘ ہے، تو ہم نے اس بار اگست کے پہلے ہفتے ہی میں آپ کے لیے’’یومِ آزادی‘‘ کی اس اسپیشل بزم کا اہتمام کر ڈالا ہے۔ ہماری طرف سے یہ چھوٹا سا نذرانہ قبول کریں اور حسبِ روایت، ہر سال کی طرح وہی ایک نصیحت پھر دُہرائے دیتے ہیں کہ یومِ آزادی پر محض گھروں کو جھنڈوں، جھنڈیوں سے سجا کے اور خود کو سبز و سفید رنگوں سے آراستہ و پیراستہ کرکے ہر ذمّے داری سے سبکدوش نہ ہو جائیے گا۔ آپ کو نہ صرف دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کرکے رب کے حضور پورے خشوع وخضوع سے مادرِ وطن کی بقا و سلامتی، ترقی و خوش حالی اور امن و آشتی کی دُعا کرنی ہے بلکہ اِک اِک فرد نے اپنے آپ سے یہ عہد بھی کرنا ہے کہ ؎ ’’اب کے برس کچھ ایسی تدبیر کرتے ہیں…مل کر اِک شہرِ محبّت تعمیرکرتے ہیں… خزاں کی اُجاڑ شامیں نہ آئیں اگلے سال… اس بہار رُت کو زنجیر کرتے ہیں‘‘۔ ہماری طرف سے اس خُوب صُورت دُعا کے ساتھ کہ ؎ یارب میرے وطن کی کھیتی ہری رہے… صندل سے مانگ، بچّوں سے گودی بھری رہے ۔ آپ سب کو عیدِ آزادی بہت بہت مبارک ہو۔

تازہ ترین
تازہ ترین