کیا روشنیوں کے شہر کراچی کیلئے ہرگند،کوڑے کرکٹ اور آلودگی سے صفائی کی کوئی امیدہے۔ 70کی دہائی میں ایم اےجناح روڈ سمیت کراچی کی اہم شاہروں کی روزتو نہیں لیکن ہرہفتےصفائی ہوتی تھی۔ کیا ہم یہ دوبارہ کرسکتے ہیں؟21ایم این ایز، 44ایم پی ایز، سیکڑوں کونسلرزاور بڑی سیاسی پارٹیوں کے ہزاروں کارکنان جنھیں شہریوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے، وہ کافی حد تک کام کرسکتےہیں۔ صرف اپناحلقہ صاف رکھیں اورہفتوں میں نہیں توچند ماہ میں ہی شہرمختلف نظرآئےگا۔ جہاں تک شہری، سندھ کے اور وفاقی حکومت کےکردارکاتعلق ہےتوانھیں نہ صرف پلاسٹک بیگز، گٹکاپر پابندی لگانے کی ضرورت ہے بلکہ ان تمام ذرائع کو بھی بند کرنا ہوگا جہاں سے یہ آتے ہیں۔ مجھے تاحال اس میگا سٹی کےوہ پرانے اچھے دن یادہیں جب پارک اور پلے گرائونڈز کو باقاعدہ پانی کی سپلائی ملا کرتی تھی تاکہ گھاس اور گرائونڈ صاف رہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نےملک کےسب سےبڑےشہرکو’خون کی ندیوں‘ میں دیکھا۔ اسے صاف کرنے کی حالیہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوگی یہ دیکھنا دلچسپ ہوگالیکن یہ یقین ہےکہ درست سمت میں ایک قدم کافی دورتک جاتاہے۔ لہذاملک کے معاشی مرکزکودرحقیقت کیاہواکہ روشنیوں کاشہروفاق کو 70فیصد ریوینیو دینے کے باوجود تاریکیوں میں ڈوب گیا، اس کیلئےمکمل مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ پرانےکراچی کی بحالی ایک مشکل کام ہوگالیکن ہم تاحال ’نیا کراچی‘بنانےکاخواب دیکھ سکتےہیں، ضرورت صرف اس کی ذمہ داری لینےکی ہے۔