• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے، بھارت میں بنائی گئی فلمیں نہ صرف بھارتی سینماؤں اور برصغیر کے تمام ممالک میں ریلیزہوتی ہیں بلکہ یورپ، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی نمائش کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔ صرف بھارت میں پانچ ہزار سے زائد سینما گھر ہیں جہاں روزانہ ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائد فلم بین فلم دیکھنے کیلئے جاتے ہیں، صرف ممبئی میں دو سو پچاس سینما گھروں میں فلموں کی نمائش ہوتی ہے۔ ایک سال میں اوسطاً ایک ہزار سے زائد فلمیں بنائی جاتی ہیں جو ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ہوتی ہیں اگر بھارت میں بنائی گئی کوئی فلم صرف بھارت کے ایک ہزار سینماؤں میں بھی نمائش کیلئے پیش کی جائے اور وہ سینما صرف پانچ لاکھ روپے کا بزنس دے تو پچاس کروڑ روپے ریکور ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب بھارت میں ایک ایک ارب روپے سے زائد لاگت کی فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے شاہ رخ خان کی پیش کی جانے والی فلم را۔ون (RA-ONE) پر 135 کروڑ روپے کا بجٹ لگایا گیا۔ بننے والی ایک دوسری فلم بلیو پر ایک سو بیس کروڑ روپے لاگت آئی۔ عامر خان کی بنائی ہوئی فلم تھری ایڈیٹس نے دو ارب روپے سے زیادہ کا بزنس کیا۔ بھارت میں مسلمان ڈائریکٹر آصف کی بنائی ہوئی فلم”مغل اعظم“ جو مغیلہ دور کی ایک کہانی کے گرد گھومتی ہے کو نہ صرف اپنے وقت کی بڑی فلم تصور کیا جاتا ہے بلکہ فلم بین آج بھی اس فلم کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں حالانکہ اس فلم کو بنے ہوئے تقریباً نصف صدی گزر چکی ہے لیکن بھارت میں سب سے زیادہ عرصہ چلنے والی فلم شاہ رخ خان کی ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ ہے۔فلموں اور اداکاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے بھارت میں سالانہ دو درجن فلم ایوارڈز کی تقاریب ہوتی ہیں ان ایوارڈز پر بھی اربوں روپے کے اخراجات آتے ہیں اور ان کو ٹیلی کاسٹ کرکے اربوں روپے کمائے بھی جاتے ہیں۔ بھارت میں فلم بنانے کیلئے جدید سازوسامان موجود ہے اور نہ صرف وہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس روزگار سے منسلک ہے بلکہ بھارتی حکومت کو بھی ایک بڑا ریونیو فلم انڈسٹری کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔گزشتہ کچھ سالوں سے بھارتی فلمیں پاکستان میں بھی نمائش کیلئے پیش کی جا رہی ہیں پاکستان میں نمائش سے پہلے بھارتی فلم کو سنسر کیا جاتا ہے اور پاکستان فلم سنسر کوڈ جوکئی سال پرانا ہے اور جس میں کسی بھی ہیروئن کا وہ گانا جس میں وہ بارش میں بھیگ رہی ہو اور اس کے اعضاء نمایاں ہو رہے ہوں وہ ممنوع ہے لیکن بھارتی فلموں میں بارش میں فلمائے گئے گانوں سے بڑھ کر کیا کچھ ہوتا ہے ہم سب جانتے ہیں لیکن یہ فلمیں سنسر بورڈ سے پاس ہو جاتی ہیں اس وقت فلم سنسر بورڈ کے لئے تقریباً اکیس ممبرز موجود ہیں لیکن اگر ان میں سے تین ممبر بھی فلم دیکھ کر اسے پاس کردیں تو اسے نمائش کیلئے پیش کردیا جاتا ہے، یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری گزشتہ دو تین دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں نگار خانے جہاں پرہروقت چہل پہل رہتی تھی اور ایک ہیرو سے لیکر فلم اسٹوڈیوز کے باہر چائے کے کھوکھوں تک کا کاروبار اور آمدن عروج پر تھی، آج ان سٹوڈیوز میں ویرانی چھائی ہوئی ہے، پرانے ٹیکنکل لوگ جواپنے کام کے ماہر تھے بے روزگاری اور پریشانیوں کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں حالانکہ بھارت کے مقابلے میں ہمارے پاس بھی بے پناہ ٹیلنٹ ہے اور خود بھارت کے بڑے ناموں نے نہ صرف اس کا اعتراف کیا ہے بلکہ آج بھی بھارت میں پاکستانی فنکاروں کا طوطی بولتا ہے چاہے وہ راحت فتح علی خان ہوں یا عاطف اسلم، جاوید شیخ ہوں یا غزل گائیک غلام علی، عمر شریف ہوں یا عدنان سمیع یہ سارے لوگ بھارتی فلموں کی آج بھی ضرورت ہیں لیکن ہماری حکومتوں نے ہمارے فنکاروں اور فلم انڈسٹری کے لئے کچھ نہیں کیا ہمارے ہاں آج بھی فلمیں دیکھی جاتی ہیں لیکن وہ بھارتی فلمیں ہوتی ہیں، میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ اگر آج بھی پاکستان فلم انڈسٹری کو مراعات دی جائیں، فلم دوست پالیسیاں بنائی جائیں تو ماضی کی طرح ”میرا نام ہے محبت“، ”امراؤ جان ادا“، ”بندش“، ”آئینہ“،”زندگی“، ”چوڑیاں“ جیسی شہرہ آفاق اور سپرہٹ فلمیں بنائی جا سکتی ہیں، یہ صرف چند نام دیئے گئے ہیں اگر آج بھی مراعات دی جائیں اور پالیسیاں اچھی ہوں تو ”خدا کیلئے“ اور ”بول“ جیسی عالمی مقابلے کی فلمیں بنائی جاسکتی ہیں نورجہاں، مہدی حسن، احمد رشدی، سہیل رانا، استاد نصرت فتح علی خان، مالا، اخلاق احمد جیسی مدھر آوازیں بھی پاکستان میں ہی پیدا ہوئی تھیں محمد علی، ندیم، وحید مراد، شاہد، لہری، منورظریف، مصطفیٰ قریشی، شان، عمر شریف، سید نور، شعیب منصور، صبیحہ خانم، مسرت نذیر، رانی، نیئر سلطانہ، ریما، بابرہ شریف، رنگیلا، نشو، فردوس، انجمن، نیلی، صاحبہ ان کا تعلق بھی پاکستان سے ہی تھا اور ہے جن کے فن کو بھارت کے کسی بھی فنکار سے مقابلے کیلئے پیش کیا جاسکتا ہے اگر بھارت کی فلمیں پاکستان میں دکھائی جاسکتی ہیں تو پاکستانی فلمیں بھی بھارت میں دکھائی جانی چاہئیں۔ فلم انڈسٹری کو دوبارہ زندہ کرنے میں فلم انڈسٹری سے وابستہ سرکردہ لوگوں کو بھی کردار نبھانا پڑے گا لیکن حکومت کو بھی ان کی سرپرستی کرنی چاہئے۔
تازہ ترین